اردو کی آخری کتاب

ماں کی مصیبت
ماں بچے بچوں کو گود میں ليے بیٹھی ہے۔ باپ انگوٹھا چوس رہا ہے اور دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ بچہ حسب معمول آنکھیں کھولے پڑاہے۔ ماں محبت بھری نگاہوں سے اس کے منہ کو تک رہی ہے اور پیار سے حسب ذیل باتیں پوچھتی ہے:
۱۔ وہ دن کب آئے گا جب تو میٹھی میٹھی باتیں کرے گا؟
۲۔ بڑا کب ہوگا؟ مفصل لکھو۔
۳۔ دولہا کب بنے گااور دلہن کب بیاہ کر لائے گا؟ اس میں شرمانے کی ضرورت نہیں۔
۴۔ ہم کب بڈھے ہوں گے؟
۵۔ تو کب کمائے گا؟
۶۔ آپ کب کھائے گا؟ اور ہمیں کب کھلائے گا؟ باقاعدہ ٹائم ٹیبل بنا کر واضح کرو۔

سویرے جو کل آنکھ میری کھلی

گیدڑ کی موت آتی ہے تو شہر کی طرف دوڑتا ہے۔ ہماری جو شامت آئی تو ایک دن اپنے پڑوسی لالہ کرپا شنکرجی برہمچاری سے برسبیل تذکرہ کہہ بیٹھے کہ "لالہ جی امتحان کے دن قریب آتے جاتے ہیں، آپ سحرخیز ہیں، ذرا ہمیں بھی صبح جگادیا کیجیئے۔"

مریدپور کا پیر

اکثر لوگوں کو اس بات کا تعجب ہوتا ہے کہ میں اپنے وطن کا ذکر کبھی نہیں کرتا۔ بعض اس بات پر بھی حیران ہیں کہ میں اب کبھی اپنے وطن کو نہیں جاتا۔ جب کبھی لوگ مجھ سے اس کی وجہ پوچھتے ہیں تو میں ہمیشہ بات کو ٹال دیتا ہوں۔ اس سے لوگوں کو طرح طرح کے شبہات ہونے لگتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے وہاں اس پر ایک مقدمہ بن گیا تھا اس کی وجہ سے روپوش ہے۔ کوئی کہتا ہے وہاں کہیں ملازم تھا، غبن کا الزام لگا، ہجرت کرتے ہی بنی۔ کوئی کہتا ہے والد اس کی بدعنوانیوں کی وجہ سے گھر میں نہیں گھسنے دیتے۔ غرض یہ کہ جتنے منہ اتنی باتیں۔ آج میں ان سب غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے والا ہوں۔ خدا آپ پڑھنے والوں کو انصاف کی توفیق دے۔

قصہ میرے بھتیجے سے شروع ہوتا ہے۔ میرا بھتیجا دیکھنے میں عام بھتیجوں سے مختلف نہیں۔ میری تمام خوبیاں اس میں موجود ہیں اور اس کے علاوہ نئی پود سے تعلق رکھنے کے باعث اس میں بعض فالتو اوصاف نظر آتے ہیں۔ لیکن ایک صفت تو اس میں ایسی ہے کہ آج تک ہمارے خاندان میں اس شدت کے ساتھ کبھی رونما نہیں ہوئی تھی۔ وہ یہ کہ بڑوں کی عزت کرتا ہے۔ اور میں تو اس کے نزدیک بس علم وفن کا ایک دیوتا ہوں۔ یہ خبط اس کے دماغ میں کیوں سمایا ہے؟ اس کی وجہ میں یہی بتا سکتا ہوں کہ نہایت اعلیٰ سے اعلیٰ خاندانوں میں بھی کبھی کبھی ایسا دیکھنے میں آجاتا ہے۔ میں شائستہ سے شائستہ دو زمانوں کے فرزندوں کو بعض وقت بزرگوں کا اس قدر احترام کرتے دیکھا، کہ ان پر پنچ ذات کا دھوکا ہونے لگتاہے۔

ایک سال میں کانگریس کے جلسے میں چلا گیا۔ بلکہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ کانگریس کا جلسہ میرے پاس چلا آیا۔ مطلب یہ کہ جس شہر میں، میں موجود تھا وہیں کانگریس والوں نے بھی اپنا سالانہ اجلاس منعقد کرنے کی ٹھان لی۔ میں پہلے بھی اکثر جگہ اعلان کرچکا ہوں، اور اب میں بیانگ دہل یہ کہنے کو تیار ہوں کہ اس میں میرا ذرا بھی قصور نہ تھا۔ بعض لوگوں کو یہ شک ہے کہ میں نے محض اپنی تسکین نخوت کے ليے کانگریس کا جلسہ اپنے پاس ہی کرالیا لیکن یہ محض حاسدوں کی بدطینتی ہے۔ بھانڈوں کو میں نے اکثر شہر میں بلوایا ہے۔ دو ایک مرتبہ بعض تھیٹروں کو بھی دعوت دی ہے لیکن کانگریس کے مقابلے میں میرا رویہ ہمیشہ ایک گمنام شہری کا سا رہا ہے۔ بس اس سے زیادہ میں اس موضوع پر کچھ نہ کہوں گا۔

جب کانگریس کا سالانہ جلسہ بغل میں ہو رہا ہو تو کون ایسا متقی ہوگا جو وہاں جانے سے گریز کرے، زمانہ بھی تعطیلات اور فرصت کا تھا چنانچہ میں نے مشغل بیکاری کے طور پر اس جلسے کی ایک ایک تقریری سنی۔ دن بھر تو جلسے میں رہتا۔ رات کو گھر آکر اس دن کے مختصر سے حالات اپنے بھتیجے کو لکھ بھیجتا تاکہ سند رہے اور وقت ضرورت کام آئے۔

بعد کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ بھتیجے صاحب میرے ہر خط کو بےحد ادب واحترام کے ساتھ کھولتے، بلکہ بعض بعض باتوں سے تہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس افتتاحی تقریب سے پیشتر وہ باقاعدہ وضو بھی کرلیتے۔ خط کو خود پڑھتے پھر دوستوں کو سناتے۔ پھر اخباروں کے ایجنٹ کی دکان پر مقامی لال بجھکڑوں کے حلقے میں اس کو خوب بڑھا چڑھا کر دہراتے پھر مقامی اخبار کے بےحد مقامی ایڈیٹر کے حوالے کردیتے جو اس کو بڑے اہتمام کے ساتھ چھاپ دیتا۔ اس اخبار کا نام"مریدپور گزٹ" ہے۔ اس کا مکمل فائل کسی کے پاس موجود نہیں، دو مہینے تک جاری رہا۔ پھر بعض مالی مشکلات کی وجہ سے بند ہوگیا۔ ایڈیٹر صاحب کا حلیہ حسب ذیل ہے۔ رنگ گندمی، گفتگو فلسفیانہ، شکل سے چور معلوم ہوتے ہیں۔ کسی صاحب کو ان کا پتہ معلوم ہو تو مریدپور کی خلافت کمیٹی کو اطلاع پہنچادیں اور عندالله ماجور ہوں۔ نیز کوئی صاحب ان کو ہرگز ہرگز کوئی چندہ نہ دیں ورنہ خلافت کمیٹی ذمہ دار نہ ہوگی۔

یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ اس اخبار نے میرے ان خطوط کے بل پر ا یک کانگریس نمبر بھی نکال مارا۔ جو اتنی بڑی تعداد میں چھپا کہ اس کے اوراق اب تک بعض پنساریوں کی دکانوں پر نظر آتے ہیں۔ بہرحال مریدپور کے بچے بچے نے میری قابلیت، انشاء پردازی، صحیح الدماغی اور جوش قومی کی داد دی۔ میری اجازت اور میرے علم کے بغیر مجھ کو مریدپور کا قومی لیڈر قرار دیا گیا۔ ایک دو شاعروں نے مجھ پر نظمیں بھی لکھیں۔ جو وقتاً فوقتاً مریدپور گزٹ میں چھپتی رہیں۔

میں اپنی اس عزت افزائی سے محض بےخبر تھا۔ سچ ہے خدا جس کو چاہتا ہے عزت بخشتا ہے، مجھے معلوم تھا کہ میں اپنے بھتیجے کو محض چند خطوط لکھ کر اپنے ہم وطنوں کے دل میں اس قدر گھر کرلیا ہے۔ اور کسی کو کیا معلوم تھا کہ یہ معمولی سا انسان جو ہر روز چپ چاپ سر نیچا کئے بازاروں میں سے گزر جاتا ہے مرید پور میں پوُجا جاتا ہے۔ میں وہ خطوط لکھنے کے بعد کانگریس اور اس کے تمام متعلقات کو قطعاً فراموش کرچکا تھا۔ مریدپور گزٹ کا میں خریدار نہ تھا۔ بھتیجے نے میری بزرگی کے رعب کی وجہ سے بھی برسبیل تذکرہ اتنا بھی نہ لکھ بھیجا کہ آپ لیڈر ہوگئے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ وہ مجھ سے یوں کہتا تو برسوں تک اس کی بات میری سمجھ میں نہ آتی بہرحال مجھے کچھ تو معلوم ہوتا کہ میں ترقی کرکے کہاں سے کہاں پہنچ چکا ہوں۔

کچھ عرصے بعد خون کی خرابی کی وجہ سے ملک میں جابجا جلسے نکل آئے جس کسی کو ایک میز، ایک کرسی اور گلدان میسر آیا اسی نے جلسے کا اعلان کردیا۔ جلسوں کے اس موسم میں ایک دن مریدپور کی انجمن نوجوانان ہند کی طرف سے میرے نام اس مضمون کا ایک حظ موصول ہواکہ آپ کے شہر کے لوگ آپ کے دیدار کے منتظر ہیں۔ ہر کہ دمہ آپ کے روئے انور کو دیکھنے اورآپ کے پاکیزہ خیالت سے مستفید ہونے کےليے بےتاب ہیں۔ مانا ملک بھر کو آپ کی ذات بابرکات کی ازحد ضرورت ہے۔ لیکن وطن کا حق سب سے زیادہ ہے۔ کیونکہ "خار وطن از سنبل و ریحان خوشتر۔۔۔" اسی طرح کی تین چار براہین قطعہ کے بعد مجھ سے یہ درخواست کی گئی تھی کہ آپ یہاں آکر لوگوں کو ہندومسلم اتحاد کی تلقین کریں۔

خط پڑھ کر میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ لیکن جب ٹھنڈے دل سے اس بات پر غور کیا تو رفتہ رفتہ باشندگان مریدپور کی مردم شناسی کا قائل ہوگیا۔

میں ایک کمزور انسان ہوں اور پھر لیڈری کا نشہ ایک لمحے ہی میں چڑھ جاتا ہے۔ اس لمحے کے اندر مجھے اپنا وطن بہت ہی پیارا معلوم ہونے لگا۔ اہل وطن کی بےحسی پر بڑا ترس آیا۔ ایک آواز نے کہا کہ ان بیچاروں کی بہبودی اور رہنمائی کا ذمہ دار تو ہی ہے۔ تجھے خدا نے تدبر کی قوت بخشی ہے۔ ہزارہا انسان تیرے منتظر ہیں۔ اُٹھ کہ سینکڑوں لوگ تیرے ليے ماحضر لئے بیٹھے ہوگے۔ چنانچہ میں نے مریدپور کی دعوت قبول کرلی۔ اور لیڈرانہ انداز میں بذریعہ تار اطلاع دی، کہ پندرہ دن کے بعد فلاں ٹرین سے مریدپور پہنچ جاؤں گا، اسٹیشن پر کوئی شخص نہ آئے۔ ہر ایک شخص کو چاہئے کہ اپنے اپنے کام میں مصروف رہے۔ ہندوستان کو اس وقت عمل کی ضرورت ہے۔

اس کے بعد جلسے کے دن تک میں نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اپنی ہونے والی تقریر کی تیاری میں صرف کردیا، طرح طرح کے فقرے دماغ میں صبح وشام پھرتے رہے۔
"ہند اور مسلم بھائی بھائی ہیں۔"
"ہندو مسلم شیروشکر ہیں۔"
"ہندوستان کی گاڑی کے دو پہیے۔ اے میرے دوستو! ہندواور مسلمان ہی تو ہیں۔"
"جن قوموں نے اتفاق کی رسی کو مضبوط پکڑا، وہ اس وقت تہذیب کے نصف النہار پر ہیں۔ جنہوں نے نفاق اور پھوٹ کی طرف رجوع کیا۔ تاریخ نے اس کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کرلی ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔"

بچپن کے زمانے میں کسی درسی کتاب میں "سنا ہے کہ دو بیل رہتے تھے اک جا" والا واقعہ پڑھا تھا۔ اسے نکال کر نئے سرے سے پڑھا اور اس کی تمام تفصیلات کو نوٹ کرلیا۔ پھر یاد آیا، کہ ایک اور کہانی بھی پڑھی تھی، جس میں ایک شخص مرتے وقت اپنے تمام لڑکوں کو بلا کر لکڑیوں کا ا یک گٹھا ان کے سامنے رکھ دیتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ اس گٹھے کو توڑو۔ وہ توڑ نہیں سکے۔ پھر اس گٹھے کو کھول کر ایک ایک لکڑی ان سب کے ہاتھ میں دے دیتا ہے۔ جسے وہ آسانی سے توڑ لیتے ہیں۔ اس طرح وہ اتفاق کا سبق اپنی اولاد کے ذہن نشین کرتا ہے۔ اس کہانی کو بھی لکھ لیا، تقریر کا آغاز سوچا۔ سو کچھ اس طرح کی تمہید مناسب معلوم ہوئی کہ:
"پیارے ہم وطنو!"
گھٹا سر پہ ادبار کی چھا رہی ہے
فلاکت سماں اپنا دکھلا رہی ہے
نحوست پس و پیش منڈلا رہی ہے
یہ چاروں طرف سے ندا آ رہی ہے
کہ کل کون تھے آج کیا ہوگئے تم
ابھی جاگتے تھے ابھی سو گئے تم

ہندوستان کے جس مایہ ناز شاعر یعنی الطاف حسین حالی پانی پتی نے آج سے کئی برس پیشتر یہ اشعار قلمبند کئے تھے۔ اس کو کیا معلوم تھا، کہ جوں جوں زمانے گزرتا جائے گا، اس کے المناک الفاظ روزبروز صحیح تر ہوتے جائیں گے۔ آج ہندوستان کی یہ حالت ہے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔

اس کے بعد سوچا کہ ہندوستان کی حالت کا ایک دردناک نقشہ کھینچوں گا، افلاس، غربت، بغض وغیرہ کی طرف اشارہ کروں گا اور پھر پوچھوں گا، کہ اس کی وجہ آخر کیا ہے؟ ان تمام وجوہ کو دہراؤں گا، جو لوگ اکثر بیان کرتے ہیں۔ مثلاً غیرملکی حکومت، آب وہوا، مغربی تہذیب۔ لیکن ان سب کو باری باری غلط قرار دوں گا، اور پھر اصل وجہ بتاؤں گا کہ اصل وجہ ہندوؤں اور مسلمانوں کا نفاق ہے، آخر میں اتحاد کی نصیحت کروں گا اور تقریر کو اس شعر پر ختم کروں گا کہ:
آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل

دس بارہ دن اچھی طرح غور کرلینے کے بعد میں نے اس تقریر کا ایک خاکہ سا بنایا۔ اور اس کو ایک کاغذ پر نوٹ کیا، تاکہ جلسے میں اسے اپنے سامنے رکھ سکوں۔ وہ خاکہ کچھ اس طرح کا تھا،
(۱) تمہید اشعار حالی۔ (بلند اور دردناک آواز سے پڑھو۔)
۲) ہندوستان کی موجودہ حالت۔
(الف) افلاس
(ب‌) بغض
(ج‌) قومی رہنماؤں کی خودغرضی
۳) اس کی وجہ۔
کیا غیرملکی حکومت ہے؟ نہیں۔
کیا آب و ہوا ہے؟ نہیں۔
کیا مغربی تہذیب ہے؟ نہیں۔
تو پھر کیا ہے؟ (وقفہ، جس کے دوران میں مسکراتے ہوئے تمام حاضرین جلسہ پر ایک نظر ڈالو۔)
(۴) پھر بتاؤ، کہ وجہ ہندوؤں اور مسلمانوں کا نفاق ہے۔ (نعروں کے ليے وقفہ۔)
اس کا نقشہ کھینچو۔ فسادات وغیرہ کا ذکر رقت انگیز آواز میں کرو۔
(اس کے بعد شاید پھر چند نعرے بلند ہوں، ان کے ليے ذرا ٹھہر جاؤ۔)
(۵) خاتمہ۔ عام نصائح۔ خصوصیات اتحاد کی تلقین، شعر
(اس کے بعد انکسار کے انداز میں جا کر اپنی کرسی پر بیٹھ جاؤ۔ اور لوگوں کی داد کے جواب میں ایک ایک لمحے کے بعد حاضرین کو سلام کرتے رہو۔)

اس خاکے تیار کرچکنے کے بعد جلسے کے دن تک ہر روز اس پر نظر ڈالتا رہا اور آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر بعد معرکہ آرا فقروں کی مشق کرتا رہا۔ نمبر۳ کے بعد کی مسکراہٹ کی خاص مشق بہم پہنچائی۔ کھڑے ہو کر دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں گھومنے کی عادت ڈالی تاکہ تقریر کے دوران میں آواز سب تک پہنچ سکے اور سب اطمینان کے ساتھ ایک ایک لفظ سن سکیں۔

مریدپور کا سفر آٹھ گھنٹے کا تھا۔ رستے میں سانگا کے اسٹیشن پر گاڑی بدلنی پڑتی تھی۔ انجمن نوجوان ہند کے بعض جوشیلے ارکان وہاں استقبال کو آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے ہار پہنائے۔ اور کچھ پھل وغیرہ کھانے کو دیئے۔ سانگا سے مریدپور تک ان کے ساتھ اہم سیاسی مسائل پر بحث کرتا رہا۔ جب گاڑی مریدپور پہنچی تو اسٹیشن کے باہر کم از کم تین ہزار آدمیوں کا ہجوم تھا۔ جو متواتر نعرے لگا رہا تھا۔ میرے ساتھ جو والنٹیئر تھے، انہوں نے کہا، "سر باہر نکالئے، لوگ دیکھنا چاہتے ہیں۔" میں نے حکم کی تعمیل کی۔ ہار میرے گلے میں تھے۔ ایک سنگترہ میرے ہاتھ میں تھا، مجھے دیکھا تو لوگ اور بھی جوش کے ساتھ نعرہ زن ہوئے۔ بمشکل تمام باہر نکلا۔ موٹر پر مجھے سوار کرایاگیا۔ اور جلوس جلسہ گاہ کی طرف پایا۔

جلسہ گاہ میں داخل ہوئے، تو ہجوم پانچ چھ ہزار تک پہنچ چکا تھا۔ جو ایک آواز ہو کر میرا نام لے لے کر نعرے لگاتا رہا تھا۔ دائیں بائیں، سرخ سرخ جھنڈیوں پر مجھ خاکسار کی تعریف میں چند کلمات بھی درج تھے۔ "مثلاً ہندوستان کی نجات تمہیں سے ہے۔" "مریدپور کے فرزند خوش آمدید۔" "ہندوستان کو اس وقت عمل کی ضرورت ہے۔"
مجھ کو اسٹیج پر بٹھایا گیا ہے۔ صدر جلسہ نے لوگوں کے سامنے مجھے سے دوبارہ مصافحہ کیا اور میرے ہاتھ کو بوسہ دیا اور پھر اپنی تعارفی تقریر یوں شروع کی:
"حضرات! ہندوستان کے جس نامی اور بلند پایہ لیڈر کو آج جلسے میں تقریر کرنے کے ليے بلایا گیا ہے۔۔۔"
تقریر کا لفظ سن کر میں نے اپنی تقریر کے تمہیدی فقروں کو یاد کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اس وقت ذہن اس قدر مختلف تاثرات کی آماجگاہ بنا ہوا تھا، کہ نوٹ دیکھنے کی ضرورت پڑی۔ جیب میں ہاتھ ڈالا تو نوٹ ندارد۔ ہاتھ پاؤں میں یک لخت ایک خفیف سی خنکی محسوس ہوئی۔ دل کو سنبھالا کہ ٹھہرو، ابھی اور کئی جیبیں ہیں گھبراؤ نہیں رعشے کے عالم میں سب جیبیں دیکھ ڈالیں۔ لیکن کاغذ کہیں نہ ملا۔تمام ہال آنکھوں کے سامنے چکر کھانے لگا، دل نے زور زور سے دھڑکنا شروع کیا، ہونٹ خشک ہوتے محسوس ہوئے۔ دس بارہ دفعہ جیبوں کو ٹٹولا۔ لیکن کچھ بھی ہاتھ نہ آیا جی چاہا کہ زور زور سے رونا شروع کردوں۔ بےبسی کے عالم میں ہونٹ کاٹنے لگے، صدر جلسہ اپنی تقریر برابر کر رہے تھے۔
مریدپور کا شہر ان پر جتنا بھی فخر کرے کم ہے ہر صدی اور ہر ملک میں صرف چند ہی آدمی ایسے پیدا ہوتے ہیں، جن کی ذات نوع انسان کے ليے۔۔۔"

خدایا اب میں کیا کروں گا؟ ایک تو ہندوستان کی حالت کا نقشہ کھینچا ہے۔ اس سے پہلے یہ بتانا ہے، کہ ہم کتنے نالائق ہیں۔ نالائق کا لفظ تو غیرموزوں ہوگا، جاہل کہنا چاہیئے، یہ ٹھیک نہیں، غیرمہذب۔
"ان کی اعلیٰ سیاست دانی، ان کا قومی جوش اور مخلصانہ ہمدردی سے کون واقف نہیں۔ یہ سب باتیں تو خیر آپ جانتے ہیں، لیکن تقریر کرنے میں جو ملکہ ان کو حاصل ہے۔۔۔"
ہاں وہ تقریر کا ہے سے شروع ہوتی ہے؟ ہندومسلم اتحاد پر تقریر چند نصیحتیں ضرور کرنی ہیں، لیکن وہ تو آخر میں ہیں، وہ بیچ میں مسکرانا کہاں تھا؟
"میں آپ کو یقین دلاتا ہوں، کہ آپ کے دل ہلا دیں گے، اور آپ کو خون کے آنسو رلائیں گے۔۔۔"
صدر جلسہ کی آواز نعروں میں ڈوب گئیں۔ دنیا میری آنکھوں کے سامنے تاریک ہورہی تھی۔ اتنے میں صدر نے مجھ سے کچھ کہا مجھے الفاظ بالکل سنائی نہ دیئے۔ اتنا محسوس ہوا کہ تقریر کا وقت سر پر آن پہنچا ہے۔ اور مجھے اپنی نشست پر سے اٹھنا ہے۔چنانچہ ایک نامعلوم طاقت کے زیراثر اٹھا۔ کچھ لڑکھڑایا، پھر سنبھل گیا۔ میرا ہاتھ کانپ رہا تھا۔ ہال میں شور تھا، میں بیہوشی سے ذرا ہی دور تھا۔ اور نعروں کی گونج ان لہروں کے شور کی طرح سنائی دے رہی تھی جو ڈوبتے ہوئے انسان کے سر پر سے گزر رہی ہوں۔ تقریر شروع کہاں سے ہوتی ہے؟ لیڈروں کی خودغرضی بھی بیان کرنی ہے۔ اور کیا کہنا ہے؟ ایک کہانی بھی تھی بگلے اور لومڑی کی کہانی۔ نہیں ٹھیک ہے دو بیل۔۔۔"
اتنے میں ہال میں سناٹا چھا گیا۔ لوگ سب میری طرف دیکھ رہے تھے۔ میں نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور سہارے کے ليے میز کو پکڑ لیا میرا دوسرا ہاتھ بھی کانپ رہا تھا، وہ بھی میں نے میز پر رکھ دیا۔ اس وقت ایسا معلوم ہو رہا تھا، جیسے میز بھاگنے کو ہے۔ اور میں اسے روکے کھڑا ہوں۔ میں نے آنکھیں کھولیں اور مسکرانے کی کوشش کی، گلا خشک تھا، بصد مشکل میں نے یہ کہا۔
"پیارے ہم وطنو!"
آواز خلاف توقع بہت ہی باریک اور منحنی سی نکلی۔ ایک دو شخص ہنس دیئے۔ میں نے گلے کو صاف کیا تو اور کچھ لوگ ہنس پڑے۔ میں نے جی کڑا کرکے زور سے بولنا شروع کیا۔ پھیپھڑوں پر یک لخت جو یوں زور ڈالا تو آواز بہت ہی بلند نکل آئی، اس پر بہت سے لوگ کھل کھلا کر ہنس پڑے۔ ہنسی تھمی، تو میں نے کہا۔
"پیارے ہم وطنو!"
اس کے بعد ذرا دم لیا، اور پھر کہا، کہ:
"پیارے ہم وطنو!"
کچھ نہ آیا، کہ اس کے بعد کیا کہنا ہے۔ سینکڑوں باتیں دماغ میں چکر لگارہی تھیں، لیکن زبان تک ایک نہ آتی تھی۔
"پیارے ہم وطنو!"
اب کے لوگوں کی ہنسی سے میں بھنا گیا۔ اپنی توہین پر بڑا غصہ آیا۔ ارادہ کیا، کہ اس دفعہ جو منہ میں آیا کہہ دوں گا، ایک دفعہ تقریر شروع کردوں، تو پھر کوئی مشکل نہیں رہے گی۔
"پیارے ہم وطنوں! بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہندوستان کی آب و ہوا خواب یعنی ایسی ہے، کہ ہندوستان میں بہت سے نقص ہیں۔۔۔ سمجھے آپ؟ (وقفہ۔۔۔) نقص ہیں۔ لیکن یہ بات یعنی امر جس کی طرف میں نےاشارہ کیا ہے گویا چنداں صحیح نہیں۔" (قہقہہ)
حواس معطل ہو رہے تھے، سمجھ میں نہ آتا تھا، کہ آخر تقریر کا سلسلہ کیا تھا۔ یک لخت بیلوں کی کہانی یاد آئی، اور راستہ کچھ صاف ہوتا دکھائی دیا۔
"ہاں تو بات دراصل یہ ہے، کہ ایک جگہ دو بیل اکھٹےرہتے تھے، جو باوجود آب وہوا اور غیر ملکی حکومت کے۔" (زور کا قہقہہ)
یہاں تک پہنچ کر محسوس کیا، کہ کلام کچھ بےربط سا ہو رہا ہے۔ میں نے کہا، چلو وہ لکڑی کے گٹھے کی کہانی شروع کردیں۔
"مثلاً آپ لکڑیوں کے ایک گٹھے کو لیجیئے لکڑیاں اکثر مہنگی ملتی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں افلاس بہت ہے۔ گویا چونکہ اکثر لوگ غریب ہیں، اس لئے گویا لکڑیوں کا گٹھا یعنی آپ دیکھئے نا۔ کہ اگر۔" (بلند اور طویل قہقہہ)
"حضرات! اگر آپ نے عقل سے کام نہ لیا تو آپ کی قوم فنا ہو جائے گی۔ نحوست منڈلا رہی ہے۔ (قہقہے اور شور وغوغا۔۔۔ اسے باہر نکالو۔ ہم نہیں سنتے ہیں۔)
شیخ سعدی نے کہا ہے۔ کہ:
چو از قوم یکے بیدانشی کرد
(آواز آئی کیا بکتا ہے۔) خیر اس بات کو جانے دیجیئے۔ بہرحال اس بات میں تو کسی کو شبہ نہیں ہوسکتا۔ کہ:
آ عندلیب مل کے کریں آہ وزاریاں
تو ہائے دل پکار میں چلاؤ ہائے گل
اس شعر نے دوران خون کو تیز کردیا، ساتھ ہی لوگوں کا شور بھی بہت زیادہ ہوگیا۔ چنانچہ میں بڑے جوش سے بولنے لگا:
"جو قومیں اس وقت بیداری کے آسمان پر چڑھی ہوئی ہیں، ان کی زندگیاں لوگوں کے ليے شاہراہ ہیں۔ اور ان کی حکومتیں چار دانگ عالم کی بنیادیں ہلا رہی ہیں۔ (لوگوں کا شور اور ہنسی اور بھی بڑھتی گئی۔) آپ کے لیڈروں کے کانوں پر خودغرضی کی پٹی بندھی ہوئی ہے۔ دنیا کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے، کہ زندگی کے وہ تمام شعبے ۔۔۔"
لیکن لوگوں کا غوغا اور قہقہے اتنے بلند ہوگئے کہ میں اپنی آواز بھی نہ سن سکتا تھا۔ اکثر لوگ اُٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ اور گلا پھاڑ پھاڑ کر کچھ کہہ رہے تھے۔ میں سر سے پاؤں تک کانپ رہا تھا۔ ہجوم میں سے کسی شخص نے بارش کے پہلے قطرے کی طرح ہمت کرکے سگریٹ کی ایک خالی ڈبیا مجھ پر پھینک دی۔ اس کے بعد چار پانچ کاغذ کی گولیاں میرے اردگرد اسٹیج پر آگیں، لیکن میں نے اپنی تقریر کا سلسلہ جاری رکھا۔
"حضرات! تم یاد رکھو۔ تم تباہ ہوجاؤ گے! تم دو بیل ہو۔۔۔"
لیکن جب بوچھاڑ بڑھتی ہی گئی ، تو میں نے اس نامعقول مجمع سے کنارہ کشی ہی مناسب سمجھی۔ اسٹیج سے پھلانگا، اور زقند بھر کے دروازے میں باہر کا رخ کیا، ہجوم بھی میرے پیچھے لپکا۔ میں نے مڑ کر پیچھے نہ دیکھا۔ بلکہ سیدھا بھاگتا گیا۔ وقتاً فوقتاً بعض نامناسب کلمے میرے کانوں تک پہنچ رہے تھے۔ ان کو سن کر میں نے اپنی رفتار اور بھی تیز کردی۔ اور سیدھا اسٹیشن کا رخ کیا، ایک ٹرین پلیٹ فارم پر کھڑی تھی میں بےتحاشہ اس میں گھس گیا، ایک لمحے کے بعد وہ ٹرین وہاں سے چل دی۔
اُس دن کے بعد آج تک نہ مریدپور نے مجھے مدعو کیا ہے۔ نہ مجھے خود وہاں جانے کی خواہش پیدا ہوئی ہے۔

* * *
 

لاہور کا جغرافیہ

تمہید
تمہید کے طور پر صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ لاہور کو دریافت ہوئے اب بہت عرصہ گزرچکا ہے، اس ليے دلائل و براہین سے اس کے وجودکو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ کہنے کی اب ضرور نہیں کہ کُرے کو دائیں سے بائیں گھمائیے۔ حتیٰ کہ ہندوستان کا ملک آپ کے سامنے آکر ٹھہر جائے پھر فلاں طول البلد اور فلاں عرض البلد کے مقام انقطاع پر لاہور کا نام تلاش کیجیئے۔ جہاں یہ نام کُرے پر مرقوم ہو، وہی لاہور کا محل وقوع ہے۔ اس ساری تحقیقات کو مختصر مگر جامع الفاظ میں بزرگ یوں بیان کرتے ہیں کہ لاہور، لاہور ہی ہے، اگر اس پتے سے آپ کو لاہور نہیں مل سکتا، تو آپ کی تعلیم ناقص اور آپ کی دہانت فاتر ہے۔

محل وقوع
ایک دو غلط فہمیاں البتہ ضرور رفع کرنا چاہتا ہوں۔ لاہور پنجاب میں واقع ہے۔ لیکن پنجاب اب پنج آب نہیں رہا۔ اس پانچ دریاؤں کی سرزمین میں اب صرف چار دریا بہتے ہیں۔ اور جو نصف دریا ہے، وہ تو اب بہنے کے قابل بھی نہیں رہا۔ اسی کو اصطلاح میں راوی ضعیف کہتے ہیں۔ ملنے کا پتہ یہ ہےکہ شہر کے قریب دو پل بنے ہیں۔ ان کے نیچے ریت میں دریا لیٹا رہتا ہے۔ بہنے کا شغل عرصے سے بند ہے، اس ليے یہ بتانا بھی مشکل ہے کہ شہر دریا کے دائیں کنارے پر واقع ہے یا بائیں کنارے پر۔ لاہور تک پہنچنے کے کئی رستے ہیں۔ لیکن دو ان میں سے بہت مشہور ہیں۔ ایک پشاور سے آتا ہے اور دوسرا دہلی سے۔ وسط ایشیا کے حملہ آور پشاور کے راستے اور یو۔پی کے رستے وارد ہوتے ہیں۔ اول الذکر اہل سیف کہلاتے ہیں اور غزنوی یا غوری تخلص کرتے ہیں مؤخر الذکر اہل زبان کہلاتے ہیں۔ یہ بھی تخلص کرتے ہیں، اور اس میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔

حدوداربعہ
کہتے ہیں، کسی زمانے میں لاہور کا حدوداربعہ بھی ہوا کرتا تھا، لیکن طلباء کی سہولت کے ليے میونسپلٹی نے اس کو منسوخ کردیا ہے۔ اب لاہور کے چاروں طرف بھی لاہور ہی واقعہ ہے۔ اور روزبروز واقع تر ہورہا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے، کہ دس بیس سال کے اندر لاہور ایک صوبے کا نام ہوگا۔ جس کادارالخلافہ پنجاب ہوگا۔ یوں سمجھئے کہ لاہور ایک جسم ہے، جس کے ہر حصے پر ورم نمودار ہورہا ہے، لیکن ہر ورم مواد فاسد سے بھرا ہے۔ گویا یہ توسیع ایک عارضہ ہے۔ جو اس کے جسم کو لاحق ہے۔

آب وہوا
لاہور کی آب وہوا کے متعلق طرح طرح کی روایات مشہور ہیں، جو تقریباً سب کی سب غلط ہیں، حقیقت یہ ہے کہ لاہور کے باشندوں نے حال ہی میں یہ خواش ظاہر کی ہے کہ اور شہروں کی طرح ہمیں بھی آب و ہوا دی جائے، میونسپلٹی بڑی بحث وتمحیص کے بعد اس نتیجہ پر پہنچی کہ اس ترقی کے دور میں جبکہ دنیا میں کئی ممالک کو ہوم رول مل رہا ہے اور لوگوں میں بیداری کے آثار پیدا ہو رہے ہیں، اہل لاہور کی یہ خواش ناجائز نہیں۔ بلکہ ہمدردانہ غوروخوض کی مستحق ہے۔
لیکن بدقسمتی سے کمیٹی کے پاس ہوا کی قلت تھی، اس ليے لوگوں کو ہدایت کی گئی کہ مفاد عامہ کے پیش نظر اہل شہر ہوا کا بیجا استعمال نہ کریں، بلکہ جہاں تک ہوسکے کفایت شعاری سے کام لیں۔ چنانچہ اب لاہور میں عام ضروریات کے ليے ہوا کے بجائے گرد اور خاص خاص حالات میں دھواں استعمال کیا جاتا ہے۔ کمیٹی نے جابجا دھوئیں اور گرد کے مہیا کرنے ليے مرکز کھول دیئے ہیں۔ جہاں یہ مرکبات مفت تقسیم کئے جاتے ہیں۔ امید کی جاتی ہے، کہ اس سے نہایت تسلی بخش نتائج برآمد ہوں گے۔
بہم رسائی آب کے ليے ایک اسکیم عرصے سے کمیٹی کے زیرغور ہے۔ یہ اسکیم نظام سقے کے وقت سے چلی آتی ہےلیکن مصیبت یہ ہے کہ نظام سقے کے اپنےہاتھ کے لکھئے ہوئے اہم مسودات بعض تو تلف ہوچکے ہیں اور جو باقی ہیں ان کے پڑھنے میں بہت دقت پیش آرہی ہے اس ليے ممکن ہے تحقیق وتدقیق میں چند سال اور لگ جائیں، عارضی طور پر پانی کا یہ انتظام کیا گیا ہے کہ فی الحال بارش کے پانی کو حتی الوسع شہر سے باہر نکلنے نہیں دیتے۔ اس میں کمیٹی کو بہت کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ تھوڑے ہی عرصے میں ہر محلے کا اپنا ایک دریا ہوگا جس میں رفتہ رفتہ مچھلیاں پیدا ہوں گی اور ہر مچھلی کے پیٹ میں کمیٹی کی ایک انگوٹھی ہوگی جو رائے دہندگی کے موقع پر ہر رائے دہندہ پہن کر آئے گا۔
نظام سقے کے مسودات سے اس قدر ضرور ثابت ہوا ہے کہ پانی پہنچانے کے ليے نل ضروری ہیں چنانچہ کمیٹی نے کروڑوں روپے خرچ کرکے جابجا نل لگوا دی ئے ہیں۔ فی الحال ان میں ہائیڈروجن اور آکیسجن بھری ہے۔ لیکن ماہرین کی رائے ہے کہ ایک نہ ایک دن یہ گیسیں ضرور مل کر پانی بن جائیں گی۔ چنانچہ بعض بعض نلوں میں اب بھی چند قطرے روزآنہ ٹپکتے ہیں۔ اہل شہر کو ہدایت کی گئی ہے، کہ اپنے اپنے گھڑے نلوں کے نیچے رکھ چھوڑیں تاکہ عین وقت پر تاخیر کی وجہ سے کسی کو دل شکنی نہ ہو، شہر کے لوگ اس پر بہت خوشیاں منا رہے ہیں۔

ذرائع آمدورفت
جو سیاح لاہور تشریف لانے کا ارادہ رکھے ہوں، ان کو یہاں کے ذرائع آمدورفت کے متعلق چند ضروری باتیں ذہن نشین کرلینی چاہئیں۔ تاکہ وہ یہاں کی سیاحت سے کماحقہ اثرپذیر ہوسکیں۔ جو سڑک بل کھاتی ہوئی لاہور کے بازاروں میں سے گزرتی ہے، تاریخی اعتبار سے بہت اہم ہے۔ یہ وہی سڑک ہے جسے شیرشاہ سوری نے بنایا تھا۔ یہ آثار قدیمہ میں شمار ہوتی ہے اور بےحد احترام کی نظروں سے دیکھی جاتی ہے۔ چنانچہ اس میں کسی قسم کا ردوبدل گوارا نہیں کیا جاتا۔ وہ قدیم تاریخی گھڑے اور خندقیں جوں کی توں موجود ہیں۔ جنہں نے کئی سلطنتوں کے تختے اُلٹ د یئے تھے۔ آج کل بھی کئی لوگوں کے تختے یہاں اُلٹتے ہیں۔ اور عظمت رفتہ کی یاد دلا کر انسان کو عبرت سکھاتے ہیں۔
بعض لوگ ز یادہ عبرت پکڑنے کے ليے ان تختوں کے نیچے کہیں کہیں دو ایک پہیے لگا لیتے ہیں۔ اور سامنے دو ہک لگا کر ان میں ایک گھوڑا ٹانگ د یتے ہیں۔ اصطلاح میں اس کو تانگہ کہتے ہیں۔ شوقین لوگ اس تختہ پر موم جامہ منڈھ لیتے ہیں تاکہ پھسلنے میں سہولت ہو اور بہت زیادہ عبرت پکڑی جائے۔
اصلی اور خالص گھوڑے لاہور میں خوراک کے کام آتے ہیں۔ قصابوں کی دوکانوں پر ان ہی کا گوشت بکتا ہے۔ اور زین کس کو کھایا جاتا ہے۔ تانگوں میں ان کی بجائے بناسپتی گھوڑے استعمال کئے جاتے ہیں۔ بناپستی گھوڑا شکل وصورت میں دم دار تارے سے ملتاہے۔ کیونکہ اس گھوڑے کی ساخت میں دم زیادہ اور گھوڑا کم پایا جاتا ہے، حرکت کرتے وقت اپنی دم کو دبا لیتا ہے۔ اور اس ضبط نقش سے اپنی رفتار میں ایک سنجیدہ اعتدال پیدا کرتاہے۔ تاکہ سڑک کا ہر تاریخی گڑھا اور تانگے کا ہر ہچکولا اپنا نقش آپ پر ثبت کرتا جائے اور آپ کا ہر ایک مسام لطف اندوز ہوسکے۔

قابل دید مقامات
لاہور میں قابل دیر مقامات مشکل سے ملتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لاہور میں ہر عمارت کی بیرونی دیواریں دہری بنائی جاتی ہیں۔ پہلے اینٹوں اور چونے سے دیوار کھڑی کرتے ہیں اور پھر اس پر اشتہاروں کا پلستر کردیا جاتا ہے، جو دبازت میں رفتہ رفتہ بڑھتا جاتا ہے۔ شروع شروع میں چھوٹے سائز کے مبہم اور غیرمعروف اشتہارات چپکائے جاتے ہیں۔ مثلاً "اہل لاہور کو مژدہ" "اچھا اور سستا مال" اس کے بعد ان اشتہاروں کی باری آتی ہے، جن کے مخاطب اہل علم اور سخن فہم لوگ ہوتے ہیں مثلاً "گریجويٹ درزی ہاؤس" یا "اسٹوڈنٹوں کے ليے نادر موقع"، یا "کہتی ہے ہم کو خلق خدا غائبانہ کیا۔" رفتہ رفتہ گھر کی چار دیواری ایک مکمل ڈائرکٹری کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ دروازے کے اوپر بوٹ پالش کا اشتہار ہے۔ دائیں طرف تازہ مکھن ملنے کا پتہ درج ہے۔ بائیں طرف حافظ کی گولیوں کا بیان ہے۔ اس کھڑکی کے اوپر انجمن خدام ملت کے جلسے کا پروگرام چسپاں ہے۔ اُس کھڑکی پر کسی مشہور لیڈر کے خانگی حالت بالوضاحت بیان کردیئے ہیں۔ عقبی دیوار پر سرکس کے تمام جانوروں کی فہرست ہے اور اصطبل کے دروازے پر مس نغمہ جان کی تصویر اور ان کی فلم کے محاسن گنوا رکھے ہیں۔ یہ اشتہارات بڑی سرعت سے بدلتے رہتے ہیں اور ہر نیا مژدہ اور ہر نئی دریافت یا ایجاد یا انقلاب عظیم کی ابتلا چشمی زدن میں ہر ساکن چیز پر لیپ دی جاتی ہے۔ اس ليے عمارتوں کی ظاہری صورت ہر لمحہ بدلتی رہتی ہے اور ان کے پہنچانے میں خود شہر کے لوگوں کوبہت دقت پیش آتی ہے۔
لیکن جب سے لاہور میں دستور رائج ہوا ہے کہ بعض اشتہاری کلمات پختہ سیاہی سے خود دیوار پر نقش کردیئے جاتے ہیں۔ یہ وقت بہت حد تک رفع ہوگئی ہے، ان دائمی اشتہاروں کی بدولت اب یہ خدشہ نہیں رہا کہ کوئی شخص اپنا یا اپنے کسی دوست کا مکان صرف اس ليے بھول جائے کہ پچھلی مرتبہ وہاں چارپائیوں کا اشتہار لگا ہوا تھا اور لوٹتے تک وہاں اہالیان لاہور کو تازہ اور سستے جوتوں کا مژدہ سنایا جا رہا ہے۔ چنانچہ اب وثوق سے کہا جاسکتا ہےکہ جہاں بحروف جلی "محمد علی دندان ساز" لکھا ہے وہ اخبار انقلاب کا دفتر ہے۔ جہاں "بجلی پانی بھاپ کا بڑا ہسپتال" لکھا ہے، وہاں ڈاکٹر اقبال رہتے ہیں۔ "خالص گھی کی مٹھائی" امتیاز علی تاج کا مکان ہے۔ "کرشنا بیوٹی کریم" شالامار باغ کو، اور "کہانسی کا مجرب نسخہ" جہانگیر کے مقبرے کو جاتا ہے۔

صنعت وحرفت
اشتہاروں کے علاوہ لاہور کی سب سےبڑی صنعت رسالہ بازی اور سب سے بڑی حرفت انجمن سازی ہے۔ ہر رسالے کا ہر نمبر عموماً خاص نمبر ہوتا ہے۔ اور عام نمبر صرف خاص خاص موقعوں پر شائع کئے جاتے ہیں۔ عام نمبر میں صرف ایڈیٹر کی تصویر اور خاص نمبروں میں مس سلوچنا اور مس کجن کی تصاویر بھی دی جاتی ہے۔ اس سے ادب کو بہت فروغ نصیب ہوتا ہے اور فن تنقید ترقی کرتا ہے۔
لاہور کے ہر مربع انچ میں ایک انجمن موجود ہے۔ پریذیڈنٹ البتہ تھوڑے ہیں اس ليے فی الحال صرف دو تین اصحاب ہی یہ اہم فرض ادا کر رہے ہیں چونکہ انجمنوں کے اغراض ومقاصد مختلف ہیں اس ليے بسااوقات ایک ہی صدر صبح کسی مذہبی کانفرنس کا افتتاح کرتا ہے۔ سہ پہر کو کسی سینما کی انجمن میں مس نغمہ جان کا تعارف کراتا ہے اور شام کو کسی کرکٹ ٹیم کے ڈنر میں شامل ہوتا ہے۔ اس سے ان کا مطمح نظروسیع رہتا ہے۔ تقریر عام طور پر ایسی ہوتی ہے جو تینوں موقعوں پر کام آسکتی ہے۔ چنانچہ سامعین کو بہت سہولت رہتی ہے۔

پیداوار
لاہور کی سب سے مشہور پیداوار یہاں کے طلباء ہیں جو بہت کثرت سے پائے جاتے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں دساور کو بھیجے جاتے ہیں۔ فصل شروع سرما میں بوئی جاتی ہے۔ اور عموماً اواخر بہار میں پک کر تیار ہوتی ہے۔
طلباء کی کئی قسمیں ہیں جن میں سے چند مشہور ہیں، قسم اولی جمالی کہلاتی ہے، یہ طلباء عام طور پرپہلے درزیوں کے ہاں تیار ہوتے ہیں بعد ازاں دھوبی اور پھر نائی کے پاس بھیجے جاتے ہیں۔ اور اس عمل کے بعد کسی ریستوران میں ان کی نمائش کی جاتی ہے۔ غروب آفتاب کے بعد کسی سینما یا سینما کے گردونواح میں:
رخ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں
ادھر جاتا ہے دیکھیں یا اُدھر پروانہ آتا ہے
شمعیں کئی ہوتی ہیں، لیکن سب کی تصاویر ایک البم میں جمع کرکے اپنے رکھ چھوڑتے ہیں، اور تعطیلات میں ایک ایک کو خط لکھتے رہتے ہیں۔ دوسری قسم جلالی طلباء کی ہے۔ ان کا شجرہ جلال الدین اکبر سے ملتا ہے، اس ليے ہندوستان کا تخت وتاج ان کی ملکیت سمجھا جاتا ہے۔ شام کے وقت چند مصاحبوں کو ساتھ ليے نکلتے ہیں اور جودوسخا کے خم لنڈھاتے پھرتے ہیں۔ کالج کی خوارک انہیں راس نہیں آتی اس ليے ہوسٹل میں فروکش نہیں ہوتے۔ تیسری قسم خیالی طلباء کی ہے۔ یہ اکثر روپ اور اخلاق اور اداگون اور جمہوریت پر باآواز بلند تبادلہٴ خیالات کرتے پائے جاتے ہیں اور آفرینش اور نفسیات جنسی کے متعلق نئے نئے نظریئے پیش کرتے رہتے ہیں، صحت جسمانی کو ارتقائے انسانی کے ليے ضروری سمجھتے ہیں۔ اس ليے علی البصح پانچ چھ ڈنٹر پیلتے ہیں، اور شام کو ہاسٹل کی چھت پر گہرح سانس لیتے ہیں، گاتے ضرور ہیں، لیکن اکثر بےسرے ہوتے ہیں۔ چھوتھی قسم خالی طلباء کی ہے۔ یہ طلباء کی خالص ترین قسم ہے۔ ان کا دامن کسی قسم کی آلائش سے تر ہونے نہیں پاتا۔ کتابیں، امتحانات، مطالعہ اور اس قسم کے خرخشے کبھی ان کی زندگی میں خلل انداز نہیں ہوتے۔ جس معصومیت کو ساتھ لے کر کالج میں پہنچتے تھے، اسے آخر تک ملوث ہونے نہیں دیتے اورتعلیم اور نصاب اور درس کے ہنگاموں میں اس طرح زندگی بسر کرتے ہیں جس طرح بتیس دانتوں میں زبان رہتی ہے۔
پچھلے چند سالوں سے طلباء کی ایک اور قسم بھی دکھائی دینے لگی ہے، لیکن ان کو اچھی طرح سے دیکھنے کےليے محدب شیشے کا استعمال ضروری ہے، یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ریل کا ٹکٹ نصف قیمت پر ملتا ہے اور اگر چاہیں تو اپنی انا کے ساتھ زنانے ڈبے میں بھی سفر کرسکتے ہیں۔ ان کی وجہ سے اب یونیورسٹی نے کالجوں پر شرط عائد کر دی ہے کہ آئندہ صرف وہی لوگ پروفیسر مقرر کئے جائیں جو دودھ پلانے والے جانوروں میں سے ہوں۔

طلبی حالات
لاہور کے لوگ بہت خوش طبع ہیں۔

سوالات
لاہور تمہیں کیوں پسند ہے؟ مفصل لکھو۔
لاہور کس نے دریافت کیا اور کیوں؟ اس کے ليے سزا بھی تجویز کرو۔
میونسپل کمیٹی کی شان میں ایک قصیدہ مدحیہ لکھو۔

* * *
 

میں ایک میاں ہوں۔ مطیع وفرمانبردار، اپنی بیوی روشن آراء کو اپنی زندگی کی ہر ایک بات سے آگاہ رکھنا اصول زندگی سمجھتا ہوں اور ہمیشہ اس پر کاربند رہا ہوں۔ خدا میرا انجام بخیر کرے۔
چنانچہ میری اہلیہ میرے دوستوں کی تمام عادات وخصائل سے واقف ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ میرے دوست جتنے مجھ کو عزیز ہیں اتنے ہی روشن آراء کو برے لگتے ہیں۔ میرے احباب کی جن اداؤں نے مجھے محسور کررکھا ہے انہیں میری اہلیہ ایک شریف انسان کے ليے باعث ذلت سمجھتی ہیں۔
آپ کہیں یہ نہ سمجھ لیں کہ خدانحواستہ وہ کوئی ایسے آدمی ہیں، جن کا ذکر کسی معزز مجمع نہ کیا جاسکے۔ کچھ اپنے ہنر کے طفیل اور کچھ خاکسار کی صحبت کی بدولت سب کے سب ہی سفید پوش ہیں۔ لیکن اس بات کو کیا کروں کہ ان کی دوستی میرے گھر کے امن میں اس قدر خلل انداز ہوتی ہے کہ کچھ خاکسار کی صحبت کی بدولت سب کے سب ہی سفید پوش ہیں۔ لیکن اس بات کو کیا کروں کہ ان کی دوستی میرے گھر کے امن میں اس قدر خلل انداز ہوتی ہے کہ کچھ کہہ نہیں سکتا۔
مثلاً مرزا صاحب ہی کو لیجیئے، اچھے خاصے اور بھلے آدمی ہیں۔ گو محکمہ جنگلات میں ایک معقول عہدے پر ممتاز ہیں لیکن شکل وصورت ایسی پاکیزہ پائی ہے کہ امام مسجد معلوم ہوتے ہیں۔ جواٴ وہ نہیں کھیلتے، گلی ڈنڈے کا ان کو شوق نہیں۔ جیب کترتے ہوئے کبھی وہ نہیں پکڑے گئے۔ البتہ کبوتر پال رکھے ہیں، ان ہی سے جی بہلاتے ہیں۔ ہماری اہلیہ کی یہ کیفیت ہے کہ محلے کا کوئی بدمعاش جوئے میں قید ہوجائے تو اس کی ماں کے پاس ماتم پرسی تک کو چلی جاتی ہیں۔ گلی ڈنڈے میں کی آنکھ پھوٹ جائے تو مرہم پٹی کرتی رہتی ہیں۔ کوئی جیب کترا پکڑا جائے تو گھنٹوں آنسو بہاتی رہتی ہیں، لیکن وہ بزرگ جن کو دنیا بھر کی زبان میں مرزا صاحب کہتے تھکتی ہے وہ ہمارے گھر میں "موئے کبوترباز" کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں کبھی بھولے سے بھی میں آسمان کی طرف نظر اٹھا کر کسی چیل، کوئے، گدھ، شکرے کو دیکھنے لگ جاؤں تو روشن آراء کو فوراً خیال ہوجاتا ہے کہ بس اب یہ بھی کبوترباز بننے لگا۔
اس کے بعد مرزا صاحب کی شان میں ایک قصیدہ شروع ہوجاتا ہے۔ بیچ میں میری جانب گریز۔ کبھی لمبی بحر میں، کبھی چھوٹی بحر میں۔
ایک دن جب یہ واقعہ پیش آیا، تو میں نے مصمم ارادہ کرلیا کہ اس مرزا کمبخت کو کبھی پاس نہ پھٹکنے دوں گا، آخر گھر سب سے مقدم ہے۔ بیوی کے باہمی اخلاص کے مقابلے میں دوستوں کی خوشنودی کیا چیز ہے؟ چنانچہ ہم غصے میں بھرے ہوئے مرزا صاحب کے گھر گئے، دروازہ کھٹکھٹایا۔ کہنے لگے اندر آجاؤ۔ ہم نے کہا، نہیں آتے تم باہر آؤ۔ خیر اندر گیا۔ بدن پر تیل مل کر ایک کبوتر کی چونچ منہ میں لئے دھوپ میں بیٹھے تھے۔ کہنے لگے بیٹھ جاؤ ہم نے کہا، بیٹھیں گے نہیں، آخر بیٹھ گئے معلوم ہوتا ہے ہمارے تیور کچھ بگڑے ہوئے تھے، مرزا بولے کیوں بھئی؟ خیرباشد! میں نے کہا کچھ نہیں۔ کہنے لگے اس وقت کیسے آنا ہوا؟
اب میرے دل میں فقرے کھولنے شروع ہوئے۔ پہلے ارادہ کیا کہ ایک دم ہی سب کچھ کہہ ڈالو اور چل دو، پھر سوچا کہ مذاق سمجھے گا اس ليے کسی ڈھنگ سے بات شروع کرو۔ لیکن سمجھ میں نہ آیا کہ پہلے کیا کہیں، آخر ہم نے کہا۔
"مرزا، بھئی کبوتر بہت مہنگے ہوتے ہیں؟"
یہ سنتے ہی مرزا صاحب نے چین سے لے کر امریکہ تک کے تمام کبوتروں کو ایک ایک کرکے گنوانا شروع کیا۔ اسے بعد دانے کی مہنگائی کے متعلق گل افشانی کرتے رہے اور پھر محض مہنگائی پر تقریر کرنے لگے۔ اس دن تو ہم یوں ہی چلے آئے لیکن ابھی کھٹ پٹ کا ارادہ دل میں باقی تھا۔ خدا کا کرنا کیا ہوا کہ شام کو گھر میں ہماری صلح ہوگئی۔ ہم نے کہا، چلو اب مزرا کے ساتھ بگاڑنے سے کیا حاصل؟ چنانچہ دوسرے دن مرزا سے بھی صلح صفائی ہوگئی۔
لیکن میری زندگی تلخ کرنے کے ليے ایک نہ ایک دوست ہمیشہ کارآمد ہوتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فطرت نے میری طبیعت میں قبولیت اور صلاحیت کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے کیونکہ ہماری اہلیہ کو ہم میں ہر وقت کسی نہ کسی دوست کی عادات قبیحہ کی جھلک نظر آتی رہتی ہے یہاں تک کہ میری اپنی ذاتی شخصی سیرت بالکل ہی ناپید ہوچکی ہے۔
شادی سے پہلے ہم کبھی کبھی دس بجے اٹھا کرتے تھے ورنہ گیار بجے۔ اب کتنے بجے اٹھتے ہیں؟ اس کا اندازہ وہی لوگ لگاسکتے ہیں جن کے گھر ناشتہ زبردستی صبح کے سات بجے کرا دیا جاتا ہےاور اگر ہم کبھی بشری کمزوری کے تقاضے سے مرغوں کی طرح تڑکے اُٹھنے میں کوتاہی کریں تو فوراً ہی کہہ دیا جاتا کہ ہے کہ یہ نکھٹو نسیم کی صحبت کا نتیجہ ہے۔ ایک دن صبح صبح ہم نہا رہے تھے، سردی کا موسم ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے، صابن سر پر ملتے تھے تو ناک میں گھستا تھا کہ اتنے میں ہم نے خدا جانے کس پراسرار جذبے کے ماتحت غسل خانے میں الاپنا شروع کیا۔ اور پھر گانے لگے کہ "توری چھل بل ہے نیازی۔۔۔"اس کو ہماری انتہائی بدمذاقی سمجھا گیا، اور اس بدمذاقی کا اصل منبع ہمارے دوست پنڈت جی کو ٹھہرایا گیا۔
لیکن حال ہی میں مجھ پر ایک ایسا سانحہ گزرا ہے کہ میں نے تمام دوستوں کو ترک کر دینے کی قسم کھالی ہے۔
تین چار دن کا ذکر ہے کہ صبح کے وقت روشن آراء نے مجھ سے میکے جانے کے لیے اجازت مانگی۔ جب سے ہماری شادی ہوئی ہے، روشن آراء صرف دو دفعہ میکے گئی ہے اور پھر اس نے کچھ سادگی اور عجز سے کہا کہ میں انکار نہ کرسکا۔ کہنے لگی تو پھر میں ڈیڑھ بجے کی گاڑی میں چلی جاؤں؟ میں نے کہا اور کیا؟
وہ جھٹ تیاری میں مشغول ہوگئی اور میرے دماغ میں آزادی کے خیالات نے چکر لگانے شروع کئے۔ یعنی اب بےشک دوست آئیں، بےشک ادوھم مچائیں، میں بےشک گاؤں، بےشک جب چاہوں اُٹھوں، بےشک تھیٹر جاؤں، میں نے کہا۔
"روشن آراء جلدی کرو، نہیں تو گاڑی چھوٹ جائے گی۔" ساتھ اسٹیشن پر پر گیا۔ جب گاڑی میں سوار کراچکا تو کہنے لگی "خط زور لکھتے رہئے!" میں نے کہا"ہر روز اور تم بھی!"
"کھانا وقت پہ کھا لیا کیجیئے اور وہاں دھلی ہوئی جرابیں اور رومال الماری کے نچلے خانے میں پڑے ہیں"۔ اس کے بعد ہم دونوں خاموش ہوگئے۔ اور ایک دوسرے کے چہرے کو دیکھتے رہے۔ اس کی آنکھو میں آنسو بھر آئے، میرا دل بھی بیتاب ہونے لگا اور جب گاڑی روانہ ہوئی تو میں دیر تک مبہوت پلیٹ فارم پر کھڑا رہا۔
آخر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا کتابوں کی دکان تک آیا اور رسالوں کے ورق پلٹ پلٹ کر تصویریں دیکھتا رہا۔ ایک اخبار خریدا، تہہ کرکے جیب ڈالا اور عادت کے مطابق گھر کا ارادہ کیا۔
پھر خیال آیا کہ اب گھر جانا ضروری نہیں رہا۔ اب جہاں چاہوں جاؤں، چاہوں تو گھنٹوں اسٹیشن پر ہی ٹہلتا رہوں، دل چاہتا تھا قلابازیاں کھاؤں۔
کہتے ہیں، جب افریقہ کے وحشیوں کو کسی تہذیب یافتہ ملک میں کچھ عرصہ رکھا جاتا ہے تو گو وہ وہاں کی شان وشوکت سے بہت متاثر ہوتے ہیں۔ لیکن جب واپس جنگلوں میں پہنچتے ہیں تو خوشی کے مارے چیخیں مارتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی کیفیت میرے دل کی بھی ہو رہی تھی۔ بھاگتا ہوا اسٹیشن سے آزادانہ باہر نکلا، آزادی کے لہجہ میں تانگے والے کو بلایا اور کود کر تانگے میں سوار ہوگیا۔ سگریٹ سلگا لیا، ٹانگیں سیٹ پر پھیلا دیں اور کلب کو روانہ ہوگیا۔
رستے میں ایک بہت ضروری کام یاد آیا، تانگہ موڑ کر گھر کی طرف پلٹا، باہر ہی سے نوکرکو آوازد دی۔
"امجد"
"حضور!"
"دیکھو، حجام کو جاکے کہہ دو کہ کل گیارہ بجے آئے۔"
"بہت اچھا۔"
"گیارہ بجے سن لی نا؟ کہیں روز کی طرح پھر چھ بجے وارد نہ ہوجائے۔"
"بہت اچھا حضور۔"
"اور اگر گیارہ بجے سے پہلے آئے، تو دھکے دے کر باہر نکال دو۔"
یہاں سے کلب پہنچے، آج تک کبھی دن کے دو بجے کلب نہ گیا تھا، اندر داخل ہوا تو سنسان۔ آدمی کا نام ونشان تک نہیں سب کمرے دیکھ ڈالیے۔ بلیرڈ کا کمرہ خالی، شطرنج کا کمرہ خالی۔ صرف کھانے کے کمرے میں ایک ملازم چھریاں تیز کررہا تھا۔ اس سے پوچھا"کیوں بے آج کوئی نہیں آيا؟"
کہنے لگا "حضور آپ جانتے ہیں، اس وقت بھلا کون آتا ہے؟"
بہت مایوس ہوا باہر نکل کر سوچنے لگا کہ اب کیا کروں؟ اور کچھ نہ سوجھا تو وہاں سے مرزا صاحب کے گھر پہنچا معلوم ہوا ابھی دفتر سے واپس نہیں آئے، دفتر پہنچا دیکھ کر بہت حیران ہوئے، میں نے سب حال بیان کیا کہنے لگے۔ "تم باہر کے کمرے میں ٹھہرو، تھوڑا سا کام رہ گیا ہے، بس ابھی بھگتا کے تمہارے ساتھ چلتا ہوں، شام کا پروگرام کیا ہے؟"
میں نے کہا۔ "تھیٹر!"
کہنے لگے۔ "بس بہت ٹھیک ہے، تم باہر بیٹوں میں ابھی آیا۔"
باہرکے کمرے میں ایک چھوٹی سی کرسی پڑی تھی، اس پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگا اور جیب سے اخبار نکال پڑھنا شروع کردیا۔ شروع سے آخر تک سب پڑھ ڈالا اور ابھی چار بجنے میں ایک گھنٹہ باقی تھا، پھر سے پڑھنا شروع کردیا۔ سب اشتھار پڑھ ڈالےاور پھر سب اشتہاروں کو دوبارہ پڑھ ڈالا۔
آخر کار اخبار پھینک کر بغیر کسی تکلف یا لحاظ کے جمائیاں لینے لگا۔ جمائی پہ جمائی۔
جمائی پہ جمائی۔ حتیٰ کہ جبڑوں میں درد ہونے لگا۔
اس کے بعد ٹانگیں ہلانا شروع کیا لیکن اس سے بھی تھک کیا۔
پھر میز پر طبلے کی گتیں بجاتا رہا۔
بہت تنگ آگیا تو دروازہ کھول کر مرزا سے کہا۔ "ابے یار اب چلتا بھی ہے کہ مجھے انتظار ہی میں مار ڈالے گا، مردود کہیں کا، سارا دن میرا ضائع کردیا۔"
وہاں سے اُٹھ کر مرزا کے گھر گئے۔ شام بڑے لطف میں کٹی۔ کھانا کلب میں کھایا۔ اور وہاں سے دوستوں کو ساتھ ليے تھیٹر گئے، رات کے ڈھائی بجے گھر لوٹے، سرہانے پر سر رکھا ہی تھا، کہ نیند نے بےہوش کردیا۔ صبح آنکھ کھلی تو کمرے میں دھوپ لہریں مار رہی تھی۔ گھڑی کو دیکھا تو پونے گیارہ بجے تھے۔ ہاتھ بڑا کر میز پر سے ایک سگریٹ اٹھایا اور سلگا کر طشتری میں رکھ دیا اور پھر اونگھنے لگا۔
گیارہ بجے امجد کمرے میں داخل ہوا کہنے لگا "حضور حجام آیا ہے۔"
ہم نے کہا۔ "یہیں بلا لاؤ"۔ یہ عیش مدت بعد نصیب ہوا، کہ بستر میں لیٹے لیٹے حجامت بنوالیں، اطمینان سے اٹھے اور نہا دھو کر باہر جانے کےليے تیار ہوئے لیکن طبیعت میں وہ شگفتگی نہ تھی، جس کی امید لگائے بیٹھے تھے، چلتے وقت الماری سے رومال نکالا تو خدا جانے کیا خیال۔ دل میں آیا، وہیں کرسی پر بیٹھ گیا۔ اور سودائیوں کی طرح اس رومال کو دیکھتا رہا۔ الماری کا ایک اور خانہ کھولا تو سردئی رنگ کا ایک ریشمی دوپٹہ نظر آیا۔ باہر نکالا، ہلکی ہلکی عطر کی خوشبو آرہی تھی۔ بہت دیر تک اس پر ہاتھ پھیرتا رہا دل بھرآیا، گھر سونا معلوم ہونے لگا۔ بہتر اپنے آپ کو سنبھالا لیکن آنسو ٹپک ہی پڑے۔ آنسوؤں کا گرنا تھا کہ بیتاب ہوگیا۔ اور سچ مچ رونے لگا۔ سب جوڑے باری باری نکال کر دیکھے لیکن نہ معلوم کیا کیا یاد آیا کہ اور بھی بےقرار ہوتا گیا۔
آخر نہ رہا گیا، باہر نکلا اور سیدھا تار گھر پہنچا۔ وہاں سے تار دیا کہ میں بہت اداس ہوں تم فوراً آجاؤ!
تار دینے کے بعد دل کو کچھ اطمینان ہوا، یقین تھا کہ روشن آراء اب جس قدر جلد ہوسکے گا، آجائے گی۔ اس سے کچھ ڈھارس بندھ گئی اور دل پر سے جیسے ایک بوجھ ہٹ گیا۔
دوسرے دن دوپہر کو مرزا کے مکان پر تاش کا معرکہ گرام ہونا تھا۔ وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ مرزا کے والد سے کچھ لوگ ملنے آئے ہیں اس ليے تجویز یہ ٹھہری کہ یہاں سے کسی اور جگہ سرک چلو۔ ہمارا مکان تو خالی تھا ہی، سب یار لوگ وہیں جمع ہوئے۔ امجد سے کہہ دیا گیا کہ حقے میں اگر ذرا بھی خلل واقع ہوا تو تمہاری خیر نہیں۔ اور پان اس طرح سے متواتر پہنچے رہیں کہ بس تانتا لگ جائے۔
اب اس کے بعد کے واقعات کو کچھ مرد ہی اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ شروع شروع میں تو تاش باقاعدہ اور باضابطہ ہوتا رہا۔ جو کھیل بھی کھیلا گیا بہت معقول طریقے سے قواعدوضاوبط کے مطابق اور متانت وسنجیدگی کے ساتھ۔ لیکن ایک دو گھنٹے کے بعد کچھ خوش طبعی شروع ہوئی، یار لوگوں نے ایک دوسرے کے پتے دیکھنے شروع کردیئے۔ یہ حالت تھی کہ آنکھ بچی نہیں اور ایک آدھ کام کا پتہ اُڑا نہیں اور ساتھ ہی قہقہےپر قہقہے اُڑنے لگے۔ تین گھنٹے کے بعد یہ حالت تھی کہ کوئی گھٹنا ہلا ہلا کر گا رہا ہے کوئی فرش پر بازو ٹیکے بجا رہا ہے۔ کوئی تھیٹر کا ایک آدھ مذاقیہ فقرہ لاکھوں دفعہ دہرا رہا ہے۔ لیکن تاش برابر ہورہا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد دھول دھپا شروع ہوا، ان خوش فعلیوں کے دوران میں ایک مسخرے نے ایک ایسا کھیل تجویز کردیا۔ جس کے آخر میں ایک آدمی بادشاہ بن جاتا ہے ہے۔ دوسرا وزیر، تیسرا کوتوال اور جو سب سے ہار جاتا ہے۔ وہ چور۔ سب نے کہا "واہ واہ کیا بات کہی ہے"۔ ایک بولا۔ "پھر آج جو چور بنا، اس کی شامت آجائے گی"۔ دوسرے نے کہا۔ "اور نہیں تو کیا بھلا کوئی ایسا ویسا کھیل ہے۔ سلطنتوں کے معاملے ہیں سلطنتوں کے!"
کھیل شروع ہوا۔ بدقسمتی سے ہم چور بن گئے۔ طرح طرح کی سزائیں تجویز ہونے لگیں۔ کوئی کہے، "ننگے پاؤں بھاگتے ہوئے جائے اور حلوائی کی دکان سے مٹھائی خرید کر لائے"۔ کوئی کہے، "نہیں حضور، سب کے پاؤں پڑے، اور ہر ایک سے دو دو چانٹے کھائے۔" دوسرے نے کہا "نہیں صاحب ایک پاؤں پر کھڑا ہو کر ہمارے سامنے ناچے۔" آخر میں بادشاہ سلامت بولے۔ "ہم حکم دیتے ہیں کہ چور کو کاغذ کی ایک لمبوتری نوک دار ٹوپی پہنائی جائے اور اس کے چہرے پر سیاہی مل دی جائے۔ اور یہ اس حالت میں جاکر اندرسے حقے کی چلم بھر کر لائے۔" سب نے کہا۔ "کیا دماغ پایا ہے حضور نے۔ کیا سزا تجویز کی ہے! واہ واہ!"
ہم بھی مزے میں آئے ہوئے تھے، ہم نے کہا "تو ہوا کیا؟ آج ہم ہیں کل کسی اور کی باری آجائے گی۔" نہایت خندہ پیشانی سے اپنے چہرے کو پیش کیا۔ ہنس ہنس کر وہ بیہودہ سی ٹوپی پہنی، ایک شان استغنا کے ساتھ چلم اٹھائی اور زنانے کا دروازہ کھول کر باورچی خانے کو چل دیئے اور ہمارے پیچھے کمرہ قہقہوں سے گونج رہا تھا۔
صحن پر پہنچےہی تھے کہ باہر کا درواز کھلا اور ایک برقعہ پوش خاتون اندر داخل ہوئی، منہ سے برقعہ الٹا تو روشن آراء!
دم خشک ہوگیا، بدن پر ایک لرزہ سا طاری ہوگیا، زبان بند ہوگئی، سامنے وہ روشن آراء جس کو میں نے تار دے کر بلایا تھا کہ تم فوراً آجاؤ میں بہت اداس ہوں اور اپنی یہ حالت کو منہ پر سیاہی ملی ہے، سر پر وہ لمبوتری سی کاغذ کی ٹوپی پہن رکھی ہے اور ہاتھ میں چلم اٹھائے کھڑے ہیں، اور مردانے سے قہقہوں کا شور برابر آرہا ہے۔
روح منجمد ہوگئی اور تمام حواس نے جواب دے دیا۔ روشن آراء کچھ دیر تک چپکی کھڑی دیکھتی رہی اور پھر کہنے لگی۔۔۔ لیکن میں کیا بتاؤں کہ کیا کہنے لگی؟ اس کی آواز تو میرے کانوں تک جیسے بیہوشی کے عالم میں پہنچ رہی تھی۔
اب تک آپ اتنا تو جان گئے ہوں گے، کہ میں بذات خود از حد شریف واقع ہوا ہوں، جہاں تک میں، میں ہوں مجھ سے بہتر میاں دنیا پیدا نہیں کرسکتی، میری سسرال میں سب کی یہی رائے ہے۔ اور میرا اپنا ایمان بھی یہی ہے لیکن ان دوستوں نے مجھے رسوا کردیا ہے۔ اس ليے میں نے مصمم ارادہ کرلیا ہے کہ اب یا گھر میں رہوں گا یا کام پر جایا کروں گا۔ نہ کسی سے ملوں گا اور نہ کسی کو اپنے گھر آنے دوں گا سوائے ڈاکیے یا حجام کے۔ اور ان سے بھی نہایت مختصر باتیں کروں گا۔
"خط ہے؟"
"جی ہاں"
"دے جاؤ، چلے جاؤ۔"
"ناخن تراش دو۔"
"بھاگ جاؤ۔"
بس، اس سے زیادہ کلام نہ کروں گا، آپ دیکھئے تو سہیٴ!

* * *
 

Pages

Subscribe to Urduseek.com English Urdu Dictionary انگریزی اردو لغت RSS