غزل - ۳۵

بن گیا رقیب آخر تھا جو رازداں اپنا

 آج ہی ہوا منظور اُن کو امتحاں اپنا

عرش سے اُدھر ہوتا، کاشکے مکاں اپنا

بارے آشنا نکلا، ان کا پاسباں، اپنا

انگلیاں فگار اپنی، خامہ خونچکاں اپنا

 ننگِ سجدہ سے میرے، سنگِ آستاں اپنا

دوست کی شکایت میں ہم نے ہمزباں اپنا

ذکر اس پری وش کا، اور پھر بیاں اپنا

مے وہ کیوں  بہت پیتے بز مِ غیر میں یا رب

منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے

دے وہ جس قد ر ذلت ہم ہنسی  میں ٹالیں گے

در دِ دل لکھوں  کب تک، جاؤں ان کو دکھلادوں

  گھستے گھستے مٹ جاتا، آپ نے عبث بدلا

تا کرے نہ غمازی، کرلیا ہے دشمن کو

 ہم کہاں کے دانا تھے، کس ہنر میں یکتا تھے

بے سبب ہوا غالب دشمن آسماں اپنا

* * * *

سرمہٴ مفتِ نظر ہوں، مری قیمت یہ ہے

 کہ رہے چشمِ خریدار پہ احساں میرا

 رخصتِ نالہ مجھے دے کہ مبادا ظالم

 تیرے چہرے سے ہو ظاہر غمِ پنہاں میرا

* * * *