جنگ پاکستان:۱۰-۹ ستمبر ۱۹۶۵ء

۶ ستمبر کو میجر عزیز بھٹی لاہور سیکٹر میں برکی کے مقام پر ایک کمپنی کی قیا دت کررہے تھے اگرچہ میجر بھٹی کی کمپنی کی دو پلاٹون بی آر بی نہر کے ملکی کنارے پر تعینات تھیں لیکن انہوں نے اگلی پلاٹون کے ساتھ رہنے کا انتخاب کیا۔ دشمن نے ۷ ستمبر سے اپنی آرٹلری اور آرمر کی پوری طاقت سے مسلسل حملے کئے مگر میجر بھٹی اور ان کے ساتھی ڈٹے رہے اور مضبوط عزم و ارا دے کے ساتھ لڑتے رہے۔ ۹ اور ۱۰ ستمبر کی درمیانی رات دشمن نے تمام سیکٹر میںایک بڑے حملے کیلئے چڑھائی کی اور میجر بھٹی کی پلاٹون کے خلاف پوری بٹالین جھونک دی۔

قیام پاکستان:۱۴ اگست ۱۹۴۷ء

مسلمانوں نے یہ سمجھنے میں کافی دیر کی کہ کانگریس کا تصور آزا دی انہیں غلامی کے درجے تک محدود کردیگا جوکہ برطانوی حکومت میں موجود صورتحال سے بھی بدتر ہوگا۔ کانگریس اور برطانیہ کے ساتھ تلخ تجربات کے بعد مسلم قیادت نے اپنی علیحدٰہ سیاسی جماعت قائم کرنے کا فیصلہ کیا چنانچہ ۱۹۰۶ء میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا۔ بے شمار مسلم رہنماؤں، مسلم اخبارات، علماء، مسلم ریاستوں کے سربراہوں، انجمنوں اور جماعتوں جیسے خلافت تحریک اور خاکسار نے اپنے اپنے دائرہ کار میں نہایت اہم کردار ادا کیا اور برطانوی حکومت اورکانگریس کے متنازعہ سلوک کا سامنا کیا۔ ۱۹۳۰ء تک مسلمانوں نے خود کو ایک اقلیت سمجھنا چھوڑدیا تھا اور اس موقف کی حمایت کرنے لگے کہ ہندوستان میں ہندو اور مسلمان دو قومیں آبا د ہیں۔

نورالدین زنگی اور صلیبی افواج:۱۱۷۴-۱۱۴۷ء
پہلی صلیبی جنگ کے بعد مسلمان کافی کمزور پوزیشن میں تھے مسلم دنیا یہ سمجھنا شروع کر چکی تھی کہ اس کی ریاستوں میں اجنبیت پائی جاتی ہے تاہم یہ بات بھی نہیں بھولنی چاھیئے کہ مسلم ریاست کاشغر سے کوردووا تک پہلے کی طرح ایک مسلسل سرحد کی حامل نہیں تھی۔ عماد الدین زنگی نے مغرب کی طرف پیش قدمی کی اور رفتہ رفتہ Mosul اور Aleppo کے درمیانی علاقے کا ماہر بن گیاوہ ایک مضبوط انسان اور بے خوف جنگجو تھاجو کہ بہت جلد عیسائیوں سے ٹکرانے والا تھاعماد الدین زنگی نے ال روحہ قصبے پر قبضہ کرلیا جو کہ شام سے بغداد کے راستے میں واقع تھا اور عیسائیوں کی زیر حکومت تھا۔

نائیجیریا کی آزادی:۱ اکتوبر ۱۹۶۰ء

صحارا کے آرپار، قافلوں کیلئے موجود راستوں نے نائیجیریا کو شمال کی تاریخی تہذیبوں سے منسلک رکھا تجارت کے علاوہ یہ راستے شمال میں موجود مسلم تہذیب سے نظریات، مذہب اور ثقافت بھی لیکر آئے اس طرح اسلام ۸ ویں صدی میں شمالی نائیجیریا میں داخل ہوا۔ ۱۴۸۶ء میں پرتگیزیوں کے ایک دورے کے بعد بینن، یورپ اور یوروبلاند کے مابین تجارت کیلئے ذخیرہ گاہ بن گیا۔ ۱۸۰۴ء میں ایک فولانی مسلم مفکر اور ولی الله، مشہور کتاب ”احیائالسناة“ کے مصنف عثمان دان فودیو سلطان بنے اور ان کا علم اٹھانے والے فولانی ریاستوں کے سربراہ بن گئے جن کی نسلیں آج بھی موجود ہیں۔

دفاع میسور:۱۷۹۹ء

ٹیپو سلطان ہند و پاک کا پہلا ممتاز سربراہ تھا جس نے برطانوی سامراج کے خلاف ایک مضبوط مزاحمت فراہم کی اور برصغیر کے لوگوں کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کرنے کیلئے سنجیدہ و عملی اقدامات کئے ۔سلطان نے انتہائی دوررس اثرات کی حامل فوجی اصلاحات نافذ کیں صنعت و تجارت کو فروغ دیا اور انتظامیہ کو ازسرنو منظم کیا سلطان کو اس بات سے اتفاق تھا کہ برصغیر کے لوگوں کا پہلا مسئلہ برطانوی اخراج ہے۔ نظام حیدرآباد دکن اور مرہٹوں نے ٹیپو کی طاقت کو اپنی بقا کیلئے خطرہ سمجھا اور انگریزوں سے اتحاد کرلیا۔

مسلم یونیورسٹی کا قیام:۱۸۷۵ء

یہ سرسید احمد خان ہی کا کارنامہ تھا کہ جو پہلے ہی مسلمانوں کو بیدار کرنے کیلئے غیر معمولی لیاقت پر مبنی کئی تحریریں رقم کر چکے تھے اور انہیں یہ احساس دلارہے تھے کہ جب تک وہ شکست اور محرومی کے احساس سے نہیں نکلیں گے برصغیر میں مسلم قوم کا مستقبل تاریک ہی رہے گا اور اس کا واحد حل اپنی تہذیب و ثقافت کے عظیم الشان ورثے سے دستبردار ہوئے بغیر ازسرنو منظم ہونا ہے۔

مراکش کی آزادی:۲ مارچ ۱۹۵۶ء

پرتگالیوں نے اندرونی بغاوتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ۱۴۷۱ء میں ارذیلا کا محاصرہ کرلیاتھا اور انہوں نے Ceuta ، القصر، الصغیر، تنگیر اور ارذیلا میں قدم جمالئے۔ اسپین نے ملیلا کی Mediterranean بندرگاہ حاصل کرلی تھی جو کہ مزید کاروائیوں کیلئے مرکز تھی یورپی مداخلت ۱۹ویں صدی میں اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی۔ سلطان نے ۱۸۵۶ء میں برطانیہ کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کرکے آزا د تجارت کی اجازت دی اور اجارہ داریوں کا خاتمہ کردیا۔ بیکلارڈ کنونشن ۱۸۶۳ء نے فرانس کو مراکش کا محافظ بنا دیا جس نے اسے غلامی کی طرف دھکیل دیا مخزن جو کہ مرکزی انتظامی ادارہ تھا غیر موثر ہوگیا۔

منگولوں کی شکست:۱۲۶۰ء
آرمینیائی-منگول اتحاد درحقیقت منگولوں کے زبردست حملوں اور توسیع میں کسی قدر اہمیت کا حامل تھا ۱۲۵۸ء میں بغداد اور ۱۲۶۰ء میں Aleppo منگولوں کے زیر قبضہ چلے گئے اور اسی سال منگول دفاع سے محروم دمشق میں بھی داخل ہوگئیاسلام کے قدیم ترین مراکز میں سے مصر اور عرب ابھی تک منگول حملوں سے محفوظ تھے۔ایک منگول قاصدنے قاہرہ پہنچ کر ، ۱۲۵۹ء میں سلطنت کے حکمران بننے والے سلطان قطز سے اطاعت قبول کرنے کا مطالبہ کیا۔

فتح مصر:۶۴۱ء
امر بن عاص ؓ ۴۰۰۰ گھڑ سواروں کے ہمراہ مصر فتح کر نے کے لئے روانہ ہوئے مصر پران دنوں رومی شہنشاہ ہرکو لیس کی حکومت تھی رومی افواج نے ۶۴۰ء میں Fayyum اور Helliopolis میں شکست کے بعد وہاں کا کنٹرول کھودیا امر ؓ نے اپنی پیش قدمی جاری رکھی۔ شکست خوردہ رومی افواج بے بیلون کے قلعے میں جمع ہوگئیں امر بن عاص ؓ نے انہیں شہ دے کر قلعے سے باہر نکا لا اور وہاں بھی شکست سے دوچار کیا۔

جنگ پاکستان:۱۸-۱۷ دسمبر ۱۹۷۱ء

۲۵ اکتوبر ۱۹۴۴ء کو پنڈ ملکاں (اب محفوظ آباد) ضلع راولپنڈی میں پیدا ہونے والے محمد محفوظ نے ۲۵ اکتوبر ۱۹۶۲ء کو آرمی میں شمولیت اختیار کی۔ ۱۹۷۱ء میں جب جنگ چھڑی لانس نائیک محمد محفوظ ۱۵ پنجاب رجمنٹ کی A کمپنی میں خدمات سرانجام دے رہے تھے جو کہ واہگہ-اٹاری سیکٹر میں تعینات تھی۔ ۱۸-۱۷ دسمبر کی رات ان کی کمپنی کو پُھل کنجری گاؤں پر قبضہ کرنے کا مشن سونپا گیا جو کہ اسی سیکٹر میں واقع تھا۔ پلاٹون نمبر ۳ جس سے محمد محفوظ تعلق رکھتے تھے حملے میں سب سے آگے تھی اور اسے مضبوط خندقوں میں مورچہ بند دشمن کی موسلا دھار فائرنگ کا سامنا تھا جب کمپنی دشمن سے محض ۷۰ گز دور تھی اسے سامنے اور اطراف سے دشمن کے خودکار ہتھیاروں کی لگا تار فائرنگ نے گھیر لیا۔

Pages

Subscribe to Urduseek.com English Urdu Dictionary انگریزی اردو لغت RSS