گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا
بحر گر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا

تنگیٴ دل کا گلہ کیا یہ وہ کافر دل ہے
کہ اگر تنگ نہ ہوتا تو پریشاں ہوتا

بعد یک عمرِ َوَرع بار تو دیتا بارے
کاش رِضواں ہی درِ یار کا درباں ہوتا
* * * *
نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

ہوا جب غم سے یوں بے حِس تو غم کیا سر کے کٹنے کا
نہ ہوتا گر جدا تن سے تو زانو پر دھرا ہوتا

ہوئی مدت کہ غالب مرگیا، پر یاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
* * * * *

جب بہ تقریبِ سفر یار نے محمل باندھا
تپشِ شوق نے ہر ذرے پہ اک دل باندھا
اہل بینش نے بہ حیرت کدہٴ شوخیٴ ناز
جوہرِ آئینہ کو طوطیٴ بسمل باندھا
یاس و امید نے یک عربدہ میداں مانگا
عجزِ ہمت نے طلسمِ دلِ سائل باندھا
نہ بندھے تشنگیٴ ذوق  کے مضموں، غالب
گرچہ دل کھول کے دریا کو بھی ساحل باندھا
* * * * *
میں اور بزمِ مے سے یوں تشنہ کام آؤں
گر میں نے کی تھی توبہ، ساقی کو کیا ہوا تھا
ہے ایک تیر جس میں دونوں چھدے پڑے ہیں
وہ دن گئے کہ اپنا دل سے جگر جدا تھا
درماندگی میں غالب کچھ بن پڑے تو جانوں
جب رشتہ بیگرہ تھا، ناخن گرہ کشا تھا
* * * * *

 گہر میں محو ہوا اضطراب دریا کا

 مگر ستمزدہ ہوں ذوقِ خامہ فرسا کا

دوامِ کلفتِ خاطر ہے عیش دنیا کا

مجھے دماغ نہیں خندہ ہائے بے جا کا

کرے ہے ہر بُنِ مو کام چشمِ بینا کا

ہمیں دماغ کہاں حسن کے تقاضا کا

مری نگاہ میں ہے جمع و خرج دریا کا

گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگیٴ جا کا

 گہر میں محو ہوا اضطراب دریا کا

 مگر ستمزدہ ہوں ذوقِ خامہ فرسا کا

دوامِ کلفتِ خاطر ہے عیش دنیا کا

مجھے دماغ نہیں خندہ ہائے بے جا کا

کرے ہے ہر بُنِ مو کام چشمِ بینا کا

ہمیں دماغ کہاں حسن کے تقاضا کا

مری نگاہ میں ہے جمع و خرج دریا کا

گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگیٴ جا کا

 گہر میں محو ہوا اضطراب دریا کا

 مگر ستمزدہ ہوں ذوقِ خامہ فرسا کا

دوامِ کلفتِ خاطر ہے عیش دنیا کا

مجھے دماغ نہیں خندہ ہائے بے جا کا

کرے ہے ہر بُنِ مو کام چشمِ بینا کا

ہمیں دماغ کہاں حسن کے تقاضا کا

مری نگاہ میں ہے جمع و خرج دریا کا

گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگیٴ جا کا

 گہر میں محو ہوا اضطراب دریا کا

 مگر ستمزدہ ہوں ذوقِ خامہ فرسا کا

دوامِ کلفتِ خاطر ہے عیش دنیا کا

مجھے دماغ نہیں خندہ ہائے بے جا کا

کرے ہے ہر بُنِ مو کام چشمِ بینا کا

ہمیں دماغ کہاں حسن کے تقاضا کا

مری نگاہ میں ہے جمع و خرج دریا کا

گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگیٴ جا کا

 گہر میں محو ہوا اضطراب دریا کا
 مگر ستمزدہ ہوں ذوقِ خامہ فرسا کا
دوامِ کلفتِ خاطر ہے عیش دنیا کا
مجھے دماغ نہیں خندہ ہائے بے جا کا
کرے ہے ہر بُنِ مو کام چشمِ بینا کا
ہمیں دماغ کہاں حسن کے تقاضا کا
مری نگاہ میں ہے جمع و خرج دریا کا

گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگیٴ جا کا

میں نہ اچھا ہوا، برا نہ ہوا

اک تماشا ہوا، گلا نہ ہوا

تو ہی جب خنجر آزما نہ ہوا

گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا

آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا

بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا

حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا

کام گر رک گیا روا نہ ہوا

لے کے دل، دلستاں روانہ ہوا

درد مِنّت کشِ دوا نہ ہوا

بے تکلف، داغِ مہ مُہرِ دہاں ہوجائے گا

پر توِ مہتاب سیلِ خانماں ہوجائے گا

ایسی باتوں سے وہ کافر بدگماں ہوجائے گا

یعنی یہ پہلے ہی نذرِ امتحاں ہوجائے گا

مجھ پہ گویا اک زمانہ مہرباں ہوجائے گا

شعلہ خس میں، جیسے خوں رگ میں، نہاں ہوجائے گا

ہر گلِ تر ایک چشمِ خوں فشاں ہوجائے گا

پےٴ نذرِ کرم تحفہ ہے شرمِ نارسائی کا
بہ خوں غلتیدہٴ صد رنگ دعویٰ پارسائی کا
نہ ہو حسنِ تماشا دوست رسوا بے وفائی کا
بہ مہرِ صد نظر ثابت ہے دعویٰ پارسائی کا
 زکاتِ حسن دے، اے جلوہٴ بینش، کہ مہر آسا
چراغِ خانہٴ درویش ہو کاسہ گدائی کا
 نہ مارا جان کر بے جرم، غافل! تیری گردن پر
رہا مانند خونِ بے گنہ حق آشنائی کا
 تمنائے زباں محوِ سپاسِ بے زبانی ہے
مٹا جس سے تقاضا شکوہٴ بے دست و پائی کا
 وہی اک بات ہے جو یاں نفس واں نکہت گل ہے
چمن کا جلوہ باعث ہے مری رنگیں نوائی کا
 دہانِ ہر بتِ پیغارہ جُو، زنجیرِ رسوائی
عدم تک بے وفا چرچا ہے تیری بے وفائی کا
نہ دے نامے کو اتنا طول غالب، مختصر لکھ دے
کہ حسرت سنج ہوں عرضِ ستمہائے جدائی کا
* * * * *

Pages

Subscribe to Urduseek.com English Urdu Dictionary انگریزی اردو لغت RSS