غافل بہ وہمِ ناز خود آرا ہے ورنہ یاں
بے شانہٴ صبا نہیں طرّہ گیاہ کا
بزمِ قدح سے عیشِ تمنا نہ رکھ، کہ رنگ
صیدِ زدام جستہ ہے اس دامگاہ کا
رحمت اگر قبول کرے، کیا بعید ہے
شرمندگی سے عذر نہ کرنا گناہ کا
مقتل  کو کس  نشاط سے جا تا  ہو ں میں، کہ ہے
پرگل خیالِ زخم سے دامن نگاہ کا
جاں در ہواے یک نگہِ گرم ہے اسد
پروانہ ہے وکیل ترے داد خواہ کا
* * * *

بن گیا رقیب آخر تھا جو رازداں اپنا

 آج ہی ہوا منظور اُن کو امتحاں اپنا

عرش سے اُدھر ہوتا، کاشکے مکاں اپنا

بارے آشنا نکلا، ان کا پاسباں، اپنا

انگلیاں فگار اپنی، خامہ خونچکاں اپنا

 ننگِ سجدہ سے میرے، سنگِ آستاں اپنا

دوست کی شکایت میں ہم نے ہمزباں اپنا

ذکر اس پری وش کا، اور پھر بیاں اپنا

رشک کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلاص حیف
عقل کہتی ہے کہ وہ بے مہر کس کا آشنا
ذرہ ذرہ ساغرِ مے خانہٴ نیرنگ ہے
گردشِ مجنوں بہ چشمکہائے لیلیٰ آشنا
شوق ہے ساماں طرازِ نازشِ اربابِ عجز
ذرہ، صحرا دستگاہ و قطرہ، دریا آشنا
میں اور اک آفت کا ٹکڑا، وہ دلِ وحشی کہ ہے
عافیت کا دشمن اور آوارگی کا آشنا
شکوہ سنجِ رشک ہمد یگر نہ رہنا چاہیے
میرا زانو مونس اور آئینہ تیرا آشنا
کوہکن نقاشِ یک تمثالِ شیریں تھا، اسد
سنگ سے سر مار کر ہووے نہ پیدا آشنا
* * * * *

عرضِ نیازِ عشق کے قابل نہیں رہا
جس دل پہ ناز تھا مجھے، وہ دل نہیں رہا
جاتا ہوں داغِ حسرتِ ہستی لئے ہوئے
ہوں شمعِ کشتہ، در خورِ محفل نہیں رہا
مرنے کی اے دل اور ہی تدبیر کر کہ میں
شایانِ دست و بازوےٴ قاتل نہیں رہا
بر روئے شش جہت در آئینہ باز ہے
یاں امتیازِ ناقص و کامل نہیں رہا
وا کر دیئے ہیں شوق نے بندِ نقابِ حسن
غیر از نگاہ اب کوئی حائل نہیں رہا
گو میں رہا رہینِ ستمہائے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا
دل سے ہواے کشتِ وفا مٹ گئی کہ واں
حاصل سوائے حسرتِ حاصل نہیں رہا
بیدادِ عشق سے نہیں ڈرتا، مگر اسد!
جس دل پہ ناز تھا مجھے، وہ دل نہیںرہا
* * * *

شب کہ وہ مجلس فروزِ خلوتِ ناموس تھا
رشتہٴ ہر شمع خارِ کسوتِ فانوس تھا
مشہد عاشق سے کوسوں تک جو اُگتی ہے حنا
کس قدر یا رب ہلاکِ حسرتِ پابوس تھا
حاصلِ الفت نہ دیکھا جز شکستِ آرزو
دل بہ دل پیوستہ،، گویا، یک لبِ افسوس تھا
کیا کروں بیماریِ غم کی فراغت کا بیاں
جو کہ کھایا خونِ دل، بے منتِ کیموس تھا
* * * *
آئينہ دیکھ اپنا سا  منہ لے کے رہ گئے
صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا
قاصد کو اپنے ہاتھ سے گردن نہ ماریے
اس کی خطا نہیں ہے یہ میرا قصور تھا
* * * * *

تو دوست کسی کا بھی، ستمگر! نہ ہوا تھا
اوروں پہ ہے وہ ظلم کہ مجھ پر نہ ہوا تھا
چھوڑا مہٴ نخشب کی طرح دستِ قضا نے
خورشید ہنوز اس کے برابر نہ ہوا تھا
توفیق بہ اندازہٴ ہمت ہے ازل سے
آنکھوں میں ہے وہ قطرہ کہ گوہر نہ ہوا تھا
جب تک کہ نہ دیکھا تھا قدِ یار کا عالم
میں معتقدِ فتنہٴ محشر نہ ہوا تھا
میں سادہ دل، آزردگیِ یار سے خوش ہوں
یعنی سبقِ شوقِ مکرّر نہ ہوا تھا
دریائے معاصی ُتنک آبی سے ہوا خشک
میرا سرِ دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا
جاری تھی اسد داغِ جگر سے مری         تحصیل
آ تشکدہ جاگیرِ سمندر نہ ہوا تھا
* * * * *

آپ آتے تھے، مگر کوئی عناں گیر بھی تھا

اس میں کچھ شائبہٴ خوبیِ تقدیر بھی تھا

کبھی فتراک میں تیرے کوئی نخچیر بھی تھا

ہاں کچھ اک رنجِ گرانباریِ زنجیر بھی تھا

بات کرتے کہ میں لب تشنہٴ تقریر بھی تھا

 گر بگڑ بیٹھے تو میں لائقِ تعزیر بھی تھا

نالہ کرتا تھا، ولے طالبِ تاثیر بھی تھا

دل، جگر تشنہٴ فریاد آیا

پھر ترا وقتِ سفر یاد آیا

پھر وہ نیرنگِ نظر ياد آیا

نالہ کرتا تھا، جگر یاد آیا

 کیوں ترا راھگزر یاد آیا

  گھر ترا خلد میں گر یاد آیا

دل سے تنگ آکے جگر یاد آیا

دلِ گم گشتہ، مگر، یاد آیا

دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا

پھر مجھے دیدہٴ تر یاد آیا

وہ میری چینِ جبیں سے غمِ پنہاں سمجھا
رازِ مکتوب بہ بے ربطیٴ عنواں سمجھا
یک الِف بیش نہیں صقیلِ آئینہ ہنوز
چاک کرتا ہوں میں جب سے کہ گریباں سمجھا
شرحِ اسبابِ گرفتاریٴ خاطر مت پوچھ
اس قدر تنگ ہوا دل کہ میں زنداں سمجھا
بدگمانی نے نہ چاہا اسے سرگرم خرام
رخ پہ ہر قطرہ عرق دیدہٴ حیراں سمجھا
عجزسے اپنے یہ جانا کہ وہ بد خو ہوگا
نبضِ خس سے تپشِ شعلہٴ سوزاں سمجھا
سفرِ عشق میں کی ضعف نے راحت طلبی
ہر قدم سائے کو میں اپنے شبستان سمجھا
تھا گریزاں مژہٴ یار سے دل تا دمِ مرگ
دفعِ پیکانِ قضا اِس قدر آساں سمجھا
دل دیا جان کے کیوں اس کو وفادار، اسد
غلطی کی کہ جو کافر کو مسلماں سمجھا

یک ذرہٴ زمیں نہیں بے کار باغ کا
یاں جادہ بھی فتیلہ ہے لالے کے داغ کا
بے مے کِسے ہے طاقتِ آشوبِ آگہی
کھینچا ہے عجزِ حوصلہ نے خط ایاغ کا
بُلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا
تازہ نہیں ہے نشہٴ فکرِ سخن مجھے
تِریاکیٴِ قدیم ہوں دُودِ چراغ کا
سو بار بندِ عشق سے آزاد ہم ہوئے
پر کیا کریں کہ دل ہی عدو ہے فراغ کا
بے خونِ دل ہے چشم میں موجِ نگہ غبار
یہ مے کدہ خراب ہے مے کے سراغ کا
باغِ شگفتہ تیرا بساطِ نشاطِ دل
ابرِ بہار خمکدہ کِس کے دماغ کا!
* * * * *

Pages

Subscribe to Urduseek.com English Urdu Dictionary انگریزی اردو لغت RSS