پھر غلط کیا ہے کہ ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا

الٹے پھر آئے درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا

روبرو کوئی بتِ آئينہ سیما نہ ہوا

تیرا بیمار، برا کیا ہے، گر اچھا نہ ہوا

خاک کا رزق ہے وہ قطرہ کہ دریا نہ ہوا

کام میں میرے ہے جو فتنہ کہ برپا نہ ہوا

حمزہ کا قِصّہ ہوا، عشق کا چرچا نہ ہوا

کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدہٴ بینا نہ ہوا

درخورِ قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا

بندگی میں بھی وہ آزادہ و خودبیں ہیں، کہ ہم

سب کو مقبول ہے دعویٰ تری یکتائی کا

 کم نہیں نازشِ ہمنامیٴ چشمِ خوباں

سینے کا داغ ہے وہ نالہ کہ لب تک نہ گیا

نام کا میرے ہے جو دکھ کہ کسی کو نہ ملا

ہر بُنِ مو سے دمِ ذکر نہ ٹپکے خونناب

قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کُل

تھی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پرزے

 دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا

* * * * *

اسد ہم وہ جنوں جولاں گدائے بے سر و پا ہیں

 کہ ہے سر پنجہٴ مژگانِ آہو پشت خار اپنا

* * * * *

نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا

کہاں تک اے سراپا ناز کیا کیا؟

شکایتہائے رنگیں کا گلا کیا

تغافلہائے تمکیں آزما کیا

ہوس کو پاسِ ناموسِ وفا کیا

تغافلہائے ساقی کا گلا کیا

غمِ آوارگیہائے صبا کیا

ہم اس کے ہیں، ہمارا پوچھنا کیا

شہیدانِ نگہ کا خونبہا کیا

اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا؟

کبھی تو نہ توڑ سکتا، اگر استوار ہوتا

یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا

 کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غمگسار ہوتا

جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا

غمٕ عشق اگر نہ ہوتا، غمِ روزگار ہوتا

دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا
زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ جائیں گے کیا
بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور، کب تلک
ہم کہیں گے حالِ دل، اور آپ فرمائیں گے کیا
حضرتِ ناصح گر آئیں، دیدہ و دل فرشِ راہ
کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو کہ سمجھائیں گے کیا؟
 آج واں تیغ و کفن باندھے ہوئے جاتا ہوں میں
عذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لائیں گے کیا
گر کیا ناصح نے ہم کو قید، اچھا یوں سہی
یہ جنونِ عشق کے انداز چھٹ جائیں گے کیا
خانہ زادِ زلف ہیں، زنجیر سے بھاگیں گے کیوں
ہیں گرفتارِ وفا، زنداں سے گھبرائیں گے کیا
ہے اب اس معمورے میں قحطِ غمِ الفت اسد
ہم نے یہ مانا کہ دلّی میں رہیں، کھائیں گے کیا؟
* * * *

شب خمارِ شوقِ ساقی رستخیز اندازہ تھا

تا محیطِ بادہ صورت خانہٴ خمیازہ تھا

یک قدم وحشت سے درسِ دفتر امکاں کھلا

جادہ، اجزائے دو عالم دشت کا شیرازہ تھا

مانعِ وحشت خرامیہائے لیلے ٰ کون ہے؟

خانہٴ مجنونِ صحرا گرد بے دروازہ تھا

پوچھ مت رسوائیِ اندازِ استغنائے حسن

دست مرہونِ حنا، رخسار رہنِ غازہ تھا

نالہٴ دل نے دیئے اوراقِ لختِ دل بہ باد

یادرگارِ نالہ اک دیوانِ بے شیرازہ تھا

* * * * *

آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

در و دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا

آپ جانا اُدھر اور آپ ہی حیراں ہونا

جوہرِ آئینہ بھی چاہے ہے مژگاں ہونا

عیدِ نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا

تو ہو اور آپ بہ صد رنگ گلستاں ہونا

لذت ریشِ جگر، غرقِ نمکداں ہونا

ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا

 گریہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانے کی

واے دیوانگیٴ شوق کہ ہر دم مجھ کو

جلوہٴ از بسکہ تقاضائے نگہ کرتا ہے

عشرتِ قتل گہِ اہل تمنا، مت پوچھ

لے گئے خاک میں ہم داغِ تمنائے نشاط

عشرتِ پارہٴ دل، زخمِ تمنا کھانا

کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ

حیف اُس چار گرہ کپڑے کی قسمت غالب!

جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا

* * * *

 

ایک ایک قطرے کا مجھے دینا پڑا حساب
خونِ جگر ودیعتِ مژگانِ یار تھا
اب میں ہوں اور ماتمِ یک شہرِ آرزو
توڑا جو تو نے آئينہ، تمثال دار تھا
گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو، کہ میں
جاں دادہٴ ہوائے سرِ رہگزار تھا
موجِ سرابِ دشتِ وفا کا نہ پوچھ حال
ہر ذرہ، مثلِ جوہرِ تیغ، آب دار تھا
کم جانتے تھے ہم بھی غمِ عشق کو، پر اب
دیکھا تو کم ہوئے پہ غمِ روزگار تھا
* * * * * *

شب کہ برقِ سوزِ دل سے زہرہٴ ابر آب تھا

شعلہٴ جوّالہ ہر اک حلقہٴ گرداب تھا

واں کرم کو عذرِ بارش تھا عناں گیرِ خرام

گریے سے یاں پنبہٴ بالش کف سیلاب تھا

واں خود آرائی کو تھا موتی پرونے کا خیال

یاں ہجومِ اشک میں تارِ نگہ نایاب تھا

جلوہٴ گل نے کیا تھا واں چراغاں آبجو

یاں رواں مژگانِ چشمِ تر سے خونِ ناب تھا

یاں سرِ پرشور بیخوابی سے تھا دیوار جو

واں وہ فرقِ ناز محوِ بالشِ کمخواب تھا

یاں نفس کرتا تھا روشن، شمعِ بزمِ بیخودی

جلوہٴ گل واں بساطِ صحبتِ احباب تھا

فرش سے تا عرش واں طوفاں تھا موجِ رنگ کا

یاں زمیں سے آسماں تک سوختن کا باب تھا

ناگہاں اس رنگ سے خوننابہ ٹپکانے لگا

دل کہ ذوقِ کاوشِ ناخن سے لذت یاب تھا

* * * * * *

رکھیو یارب یہ درِ گنجینہٴ گوہر کھلا

اِس تکلف سے کہ گویا بتکدے کا در کھلا

آستیں میں دشنہ پنہاں، ہاتھ میں نشتر کھلا

پر یہ کیا کم ہے کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا

خلد کا اک در ہے میری گور کے اندر کھلا

زلف سے بڑھ کر نقاب اُس شوخ کے منہ پر کھلا

نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا

حبابِ موجہٴ رفتار ہے نقشِ قدم میرا



محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بیدماغی ہے

کہ موجِ بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا

* * * * * *



سراپا رہنِ عشق و ناگزیرِ الفتِ ہستی

عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا



بقدرِ ظرف ہے ساقی! خمارِ تشنہ کامی بھی

جو تو دریائے مے ہے تو میں خمیازہ ہوں ساحل کا

* * * * * *

Pages

Subscribe to Urduseek.com English Urdu Dictionary انگریزی اردو لغت RSS