پھر غلط کیا ہے کہ ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا |
درخورِ قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا |
تھی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پرزے |
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا |
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا |
دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا
زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ جائیں گے کیا
بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور، کب تلک
ہم کہیں گے حالِ دل، اور آپ فرمائیں گے کیا
حضرتِ ناصح گر آئیں، دیدہ و دل فرشِ راہ
کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو کہ سمجھائیں گے کیا؟
آج واں تیغ و کفن باندھے ہوئے جاتا ہوں میں
عذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لائیں گے کیا
گر کیا ناصح نے ہم کو قید، اچھا یوں سہی
یہ جنونِ عشق کے انداز چھٹ جائیں گے کیا
خانہ زادِ زلف ہیں، زنجیر سے بھاگیں گے کیوں
ہیں گرفتارِ وفا، زنداں سے گھبرائیں گے کیا
ہے اب اس معمورے میں قحطِ غمِ الفت اسد
ہم نے یہ مانا کہ دلّی میں رہیں، کھائیں گے کیا؟
* * * *
شب خمارِ شوقِ ساقی رستخیز اندازہ تھا
تا محیطِ بادہ صورت خانہٴ خمیازہ تھا
یک قدم وحشت سے درسِ دفتر امکاں کھلا
جادہ، اجزائے دو عالم دشت کا شیرازہ تھا
مانعِ وحشت خرامیہائے لیلے ٰ کون ہے؟
خانہٴ مجنونِ صحرا گرد بے دروازہ تھا
پوچھ مت رسوائیِ اندازِ استغنائے حسن
دست مرہونِ حنا، رخسار رہنِ غازہ تھا
نالہٴ دل نے دیئے اوراقِ لختِ دل بہ باد
یادرگارِ نالہ اک دیوانِ بے شیرازہ تھا
* * * * *
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا |
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا |
حیف اُس چار گرہ کپڑے کی قسمت غالب! جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا * * * * |
ایک ایک قطرے کا مجھے دینا پڑا حساب
خونِ جگر ودیعتِ مژگانِ یار تھا
اب میں ہوں اور ماتمِ یک شہرِ آرزو
توڑا جو تو نے آئينہ، تمثال دار تھا
گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو، کہ میں
جاں دادہٴ ہوائے سرِ رہگزار تھا
موجِ سرابِ دشتِ وفا کا نہ پوچھ حال
ہر ذرہ، مثلِ جوہرِ تیغ، آب دار تھا
کم جانتے تھے ہم بھی غمِ عشق کو، پر اب
دیکھا تو کم ہوئے پہ غمِ روزگار تھا
* * * * * *
شب کہ برقِ سوزِ دل سے زہرہٴ ابر آب تھا
شعلہٴ جوّالہ ہر اک حلقہٴ گرداب تھا
واں کرم کو عذرِ بارش تھا عناں گیرِ خرام
گریے سے یاں پنبہٴ بالش کف سیلاب تھا
واں خود آرائی کو تھا موتی پرونے کا خیال
یاں ہجومِ اشک میں تارِ نگہ نایاب تھا
جلوہٴ گل نے کیا تھا واں چراغاں آبجو
یاں رواں مژگانِ چشمِ تر سے خونِ ناب تھا
یاں سرِ پرشور بیخوابی سے تھا دیوار جو
واں وہ فرقِ ناز محوِ بالشِ کمخواب تھا
یاں نفس کرتا تھا روشن، شمعِ بزمِ بیخودی
جلوہٴ گل واں بساطِ صحبتِ احباب تھا
فرش سے تا عرش واں طوفاں تھا موجِ رنگ کا
یاں زمیں سے آسماں تک سوختن کا باب تھا
ناگہاں اس رنگ سے خوننابہ ٹپکانے لگا
دل کہ ذوقِ کاوشِ ناخن سے لذت یاب تھا
* * * * * *
رکھیو یارب یہ درِ گنجینہٴ گوہر کھلا |
نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا
حبابِ موجہٴ رفتار ہے نقشِ قدم میرا
محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بیدماغی ہے
کہ موجِ بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا
* * * * * *
سراپا رہنِ عشق و ناگزیرِ الفتِ ہستی
عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا
بقدرِ ظرف ہے ساقی! خمارِ تشنہ کامی بھی
جو تو دریائے مے ہے تو میں خمیازہ ہوں ساحل کا
* * * * * *