محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے، پردہ ہے ساز کا
رنگ شکستہ صبحِ بہارِ نظارہ ہے
یہ وقت ہے شگفتنِ گل ہائے ناز کا
تو اور سوئے غیر نظر ہائے تیز تیز
میں اور دُکھ تری مِژہ ہائے دراز کا
صرفہ ہے ضبطِ آہ میں میرا، وگرنہ میں
طَعمہ ہوں ایک ہی نفسِ جاں گداز کا

وہ اک گلدستہ ہے ہم
بیخودوں کے طاقِ نسیاں کا

کہ ہر اک قطرہٴ خوں دانہ ہے تسبیحِ مرجاں کا

لیا دانتوں میں جو تنکا، ہوا ریشہ نیستاں کا

مرا ہر داغِ دل اک تخم ہے سروِ چراغاں کا

کرے جو پرتوِ خورشید، عالم شبنمستاں کا

ہیولیٰ برق خرمنِ کا ہے خونِ گرم دہقاں کا

شمارِ سُبحہ مرغوبِ بتِ مشکل پسند آیا
تماشائے بہ یک کف بردنِ صد دل، پسند آیا
بہ فیض بیدلی نومیدیٴ جاوید آساں ہے
کشایش کو ہمارا عقدہٴ مشکل، پسند آیا
ہوائے سیرِ گل آيئنہٴ بے مہریٴ قاتل
کہ اندازِ بہ خوں غلتیدنِ بِسمل پسند آیا
* * * * * *

دہر میں نقشِ وفا وجہِ تسلی نہ ہوا
ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندہٴ معنی نہ ہوا
سبزہٴ خط سے ترا کاکلِ سرکش نہ دبا
یہ زمّرد بھی حریفِ دمِ افعی نہ ہوا
میں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں
وہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا
دل گزر گاہِ خیالِ مے و ساغر ہی سہی
گر نفس جادہٴ سر منزلِ تقویٰ نہ ہوا
ہوں ترے وعدہ نہ کرنے میں بھی راضی کہ کبھی
گوش منت کشِ گلبانگِ تسلی نہ ہوا
کس سے محرومیٴ قسمت کی شکایت کیجے
ہم نے چاہا تھا کہ مر جائیں، سو وہ بھی نہ ہوا
مرگیا صدمہٴ یک جنبشِ لب سے غالب
ناتوانی سے حریفِ دمِ عیسیٰ نہ ہوا
* * * * * *

دھمکی میں مرگیا جو، نہ بابِ نبرد تھا
عشقِ نبرد پیشہ طلبگارِ مرد تھا
تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
اڑنے سے پیشتر بھی مِرا رنگ زرد تھا
تالیف نسخہ ہائے وفا کر رہا تھا میں
مجموعہٴ خیال ابھی فرد فرد تھا
دل تا جگر کہ ساحل دریائے خوں ہے اب
اس رہگزر میں جلوہٴ گل آگے گرد تھا
جاتی ہے کوئی کشمکش اندوہِ عشق کی؟
دل بھی اگر گیا تو وہی دل کا درد تھا
احباب چارہ سازیٴ وحشت نہ کرسکے
زنداں میں بھی خیال بیاباں نورد تھا
یہ لاشِ بے کفن اسدِ خستہ جاں کی ہے
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
* * * * *

شوق، ہر رنگ رقیبِ سروساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا
زخم نے داد نہ دی تنگیٴ دل کی یارب
تیر بھی سینہٴ بسمل سے پرافشاں نکلا
بوئے گل، نالٴہ دل، دودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا
دلِ حسرت زدہ تھا مائدہٴ لذتِ درد
کام یاروں کا بہ قدرٕ لب و دنداں نکلا
اے نو آموزِ فنا ہمتِِ دشوار پسند!
سخت مشکل ہے کہ یہ کام بھی آساں نکلا
دل میں پھر گریے نے اک شور اٹھایا غالب
آہ جو قطرہ نہ نکلا تھا سو طوفاں نکلا
* * * * * *

دل مرا سوزِ نہاں سے بے مُحابا جل گیا
آتشِ خاموش کے مانند گویا جل گیا
دل میں ذوقِ وصل و یادِ یار تک باقی نہیں
آگ اِس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا
میں عدم سے بھی پرے ہوں، ورنہ غافل! بارہا
میری آہِ آتشیں سے بالِ عنقا جل گیا
عرض کیجے جوہرِ اندیشہ کی گرمی کہاں؟
کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا
دل نہیں، تجھ کو دکھاتا ورنہ داغوں کی بہار
اِس چراغاں کا، کروں کیا، کارفرما جل گیا
میں ہوں اور افسردگی کی آرزو، غالب! کہ دل
دیکھ کر طرزِ تپاکِ اہلِ دنیا جل گیا
* * * * *

کہتے ہو نہ دیں گے ہم، دل اگر پڑا پایا

دل کہاں کہ گم کیجے، ہم نے مُدّعا پایا

عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا

درد کی دوا پائی، دردِ بے دوا پایا

دوستدارِ دشمن ہے، اعتمادِ دل معلوم!

آہ بے اثر دیکھی، نالہ نارسا پایا

سادگی و پرکاری، بیخودی و ہشیاری

حسن کو تغافل میں جرأت آزما پایا

غنچہ پھر لگا کِھلنے، آج ہم نے اپنا دل

خوں کیا ہوا دیکھا، گم کیا ہوا پایا

حالِ دل نہیں معلوم، لیکن اس قدر یعنی

ہم نے بارہا ڈھونڈا، تم نے بارہا پایا

شورِ پندِ ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا

آپ سے کوئی پوچھے، تم نے کیا مزا پایا؟

* * * * * *

جزقیس اور کوئی نہ آیا بہ روے کار

صحرا مگر بہ تنگیٴ چشمِ حسود تھا

آشفتگی نے نقش سویدا کیا درست

ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا

تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ

جب آنکھ کھل گئی، نہ زیاں تھا نہ سود تھا

لیتا ہوں مکتبِ غمِ دل میں سبق ہنوز

لیکن یہی کہ رفت، گیا اور بود تھا

ڈھانپا کفن نے داغِ عیوبِ برہنگی

میں ورنہ ہر لباس میں ننگِ وجود تھا

تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن، اسد!

سرگشہٴ خمارِ رسوم و قیود تھا

* * * * * *

Pages

Subscribe to Urduseek.com English Urdu Dictionary انگریزی اردو لغت RSS