30
Sep
2005
مایل بکرم راتیں ۔ اعجاز عبید کا ناولٹ
Submitted by Aijaz Ubaid
مایل بکرم ہیں راتیں
آنکھوں سے کہو کچھ مانگیں
خوابوں کے سوا جو چاہیں
شہریار
قرۃ العین حیدر کی نذر
’’پی چو۔ ہمارے سارے آیڈیلس!‘‘ رخشندہ نے آہستہ سے کہا۔ پھر اسے ہی محسوس ہوا کہ اس نے کتنی بیکار بے معنی لغو بات کہی ہے۔‘‘
(میرے بھی صنم خانے۔ ص۔ 2(20
حصہ اول:
ستارے اور دھند
ہم نے موتی سمجھ کے چوم لیا
سنگ ریزہ جہاں پڑا دیکھا
(ناصر کاظمی)
کمرے کی جھلملیوں سے صبح کے نور کی پہلی کرن شرماتی لجاتی اندر داخل ہو ئی۔ سامنے دیوار پر کلاک ایک سے بارہ اور پھر بارہ سے ایک تک مسلسل سفر کر رہا تھا۔ ٹکِ ۔ٹک۔ِٹکِِ ۔ٹک
عمران صاحب کی آنکھ کھلتے ہی نظر سامنے رکھی تصویر پر پڑی۔ ابھی جیسے کل کی ہی بات ہے کہ شاہینہ نے کہا تھا کہ اس سال فرحان کو اسکول میں داخل کرنا ہے۔ اور اب یہ فرحان صدّیقی آ ئی۔اے۔ایس۔ اضلاع کے دوروں پر گھومتا رہتا ہے۔ ابھی روحی آۓ گی، صبح کی چاۓ ہمیشہ وہی اپنے ہاتھ سے لا کر دیتی ہے اور کچھ فرحان کی خبر سناۓ گی کہ پچھلی رات فرحان نے اس سے فون پر کیا کہا۔ شاید۔ انھوں نے تھکے تھکے سے انداز سے آرام کرسی پر بیٹھتے ہوۓ سوچا۔ شاید وتت نہیں بیتتا، ہم بیت جاتے ہیں۔ ٹک۔ ٹک۔ ٹک۔ ٹک۔ کلاک مسلسل چیخ رہا تھا۔
باہر باغ میں اشوک کے درختوں پر لا تعداد پرندے اپنی ایک ساں آواز میں چلاّۓ جا رہے تھے۔ انھوں نے اٹھ کر کھڑکی کھول دی ۔سڑک کے پار سامنے کے بنگلے کے باورچی خانے میں چولھا سلگا دیا گیا تھا اور دھواں اٹھ رہا تھا۔ ماحول میں کتنی شدید یکسانیت ہے۔ انھوں نے پھر سوچا اور پھر اپنی آرام کرسی پر واپس ہوۓ۔ عمران صاحب کو اس وقت یہ خیال نہیں تھا کہ ابھی قہقہوں اور مسکراہٹوں کے غباّرے فضا میں اڑنے لگیں تو۔۔۔۔!
٭
’کشی‘
کہکشاں نے چپ چاپ کروٹ بدلی۔
’اے کشی۔۔۔۔کہکشاں!‘
کہکشاں لحاف سے منہ نکالے بغیر کچھ کہنا ہی چاہ رہی تھی کہ ایک لمبی ’شی۔۔۔۔۔‘ کی آواز آ ئی.۔
انور اپنے بستر سے اٹھ کر لہکشاں کی طرف آیا۔ ۔’کشی۔ وہی اپنی کو ئل۔۔۔۔۔۔۔!‘
کہکشاں جھٹ پٹ اپنے بستر سے اچھلی۔ اور ماحول کی یخ زدگی سے بے خبے بغیر گرم کپڑوں کے دونوں پیچھے باغ میں نکل آۓ۔
’کل بھی ایسی ہی آواز تھی نا!۔۔۔ کیوں ہے نا کشی؟‘
’ہاں ۔یہ وہی اپنی کو ئل کی آواز لگ رہی ہے‘
کو ئل اب بھی اسی طرح پکارے جا رہی تھی۔’ کو۔۔۔۔۔۔۔ کو۔۔۔۔۔۔۔ کو۔ کو۔ کو۔ کو ۔کو‘
’نانی جان کہہ رہی تھیں کہ یہ اللہ میاں کو پکارتی ہے۔ تو۔۔۔تو۔۔۔ ہیں انو ّ بھیا ّ؟‘ کہکشاں نے ’تو۔۔‘ کویل کی آواز کی نقل کرتے ہوۓ کہا۔ انورنے کوئی جواب نہیں دیا۔ کہ اسے یک لخت یاد آ گیا تھا کہ اسے بھی تو کوئل کی پکار کا جواب دینا ہے۔
’ کو۔۔۔۔۔۔۔ کو۔۔۔۔۔۔۔ کو۔ کو۔ کو۔ کو ۔کو‘ کوئل چلاّئی۔
’ کو۔۔۔۔۔۔۔ کو۔۔۔۔۔۔۔ کو۔ کو۔ کو۔ کو ۔کو‘ انور کے ساتھ کہکشاں نے بھی جواب دیا۔
’یہی ہماری کوئل ہے جو روز اس پیپل کے پیڑ پر آ کر بولتی ہے۔ شاید یہاں ہی کہیں رہتی ہو‘ کہکشاں بولی۔ ٹھنڈی ہوا سے اس کی آنکھیں مچمچانے لگیں تھیں۔
’کشی! اس کوئل کا کچھ نام دیا جاۓ۔ اب یہ ہماری تو ہو ہی گئی ہے۔ جیسے ہمارا کتاٌ نہیں ہے سولجر‘
’ہاں ہاں۔ سوچو کوئی اچھا سا نام۔‘
دونوں سوچنے لگے۔
’کالو‘ کشی نے مشورہ دیا۔ ’کوئل کالی ہوتی ہے نا۔۔!‘
مگر انور کے ذہن میں جمعدارنی کا لڑکا کالو گھوم گیا۔ ’ اونہہ۔ کالو بھی کوئی نام ہے بھلا! اور پھر کالو تو لڑکوں کے نام ہوتے ہیں۔ پھر کیا پتہ یہ کوئل نر ہے یا مادہ‘
کوئل پھرسےپیپل کی شاخ سے اڑ کر پورب کی طرف چلی گئی۔ آموں کے درختوں کی طرف۔
’تو کیا کوئل نر بھی ہوسکتی ہے یا ہو سکتا ہے‘ ۔کہکشاں گڑبڑا گئی۔ اسے کوئل کے نر ہونے کے امکان پر سخت تعجبّ ہوا تھا۔
’اے انور کہکشاں! وہاں باغ میں پہنچ گۓ ہو۔ سوئیٹر کوٹ تو پہن لیتے! او چچیّ جان! دیکھۓذرا انوّ اور کشی کو۔ باغ میں بغیر گرم کپڑوں کے گھوم رہے ہیں۔ سردی لگ جاۓ گی۔‘ شکیلہ باجی برامدے سے چلاّ رہی تھیں۔ مگر انوّ اور کہکشاں بھاگ کر اپنے کمرے میں پہنچ چکے تھے اور جلدی جلدی سوئیٹر پہن کر خود کو بے حد محفوظ محسوس کر رہے تھے۔ ویسے ان کو یہ بھی یقین تھا کہ امیّ پر شکیلہ باجی کی بات کا کچھ خاص اثر نہ ہوگا۔ اور اس وقت تو امیّ کسی کام سے غفور کو پکار رہی تھیں جو شاید اب تک بوا کی کوٹھری میں سو رہا تھا۔
ِِِ٭
’’بڑے بھیاّ!‘‘
انور نے ناشتے کی میز پر دودھ کا پہلا گھونٹ لیتے ہوۓ کہا۔
’ہوں۔۔‘ بڑے بھیاّ نے آتے ہی اپنی چاۓ بنائی اور اب چینی گھول رہے تھے۔
’یہ حلوہ پراٹھا لیجۓ نا! مزے کا ہے!!‘
’ہاں ہاں، تم تو لو۔۔۔۔۔۔‘ وہ بے حد محویت سے چاۓ میں اس طرح شکر ہلا رہے تھے جیسے دنیا کا اہم ترین کام یہی ہو۔
’’بڑے بھیاّ! تھوڑا سا تو لیجئے نا‘‘ ۔ کہکشاں کوبڑے بھیاّ پر بیت ترس آ رہا تھا۔ بے چارے ناشتے میں محض چاۓ پۓ جا رہے تھے۔ اور اب پھر جو نکلیں گے تو رات تک کھانے کا کچھ ہوش تک نہ ہوگا۔
’’تم دونوں کو آج یکایک مجھ سے اتنی ہمدردی کیوں ہو گئی ہے۔‘‘ انھوں نے ہونٹوں پر ایک غمگین سی مسکراہٹ پھیلا دی۔ اور ایک پلیٹ اتھا کر تھوڑا سا حلوہ نکال کر سامنے رکھ لیا۔
’’بڑے بھیاّ! ہماری کوئل کا اچھا سا نام رکھ دیجئے کوئی‘‘ انور نے شرما کر کہا۔
’’لو بھلا اب کوئلوں کے نام رکھے جانے لگے‘‘ بڑے بھیاّ ہنس دیۓ۔
’کیا ہوا بھئی‘ ۔ امیّ بھی کمرے میں آ کر ناشتے کی میز پر بیٹھ گئیں۔
’ یہ انوّ اور کشی اپنی کوئل کا نام رکھنا چاہ رہے ہیں۔ مطلب یہ کہ کسی کوئل کو اپنا بنا لیا ہے‘ بڑے بھیاّ ایسے شرمندہ تھے جیسے یہ حماقت ان سے ہی سر زد ہو رہی ہو۔ اور امیّ کہہ رہی تھیں۔ ’کوئی کوئل کا بھی نام رکھتا ہے جیسے کوئی پالتو جانور ہو۔ ‘ٹھیک ہے بھائی۔ اس گھر کی توریت ہی نرالی ہے۔ کہ آنکھ کے اندھے اور نام نین سکھ۔ جسے عقل چھو کر نہ گزرے اس کا نام ایسا جیسے بہت عقل مند ہو۔ کالے کوےّ کی سی صورت کا نام ایسا جیسے کسی بے حد حسین کا نام ہو ۔۔۔۔۔ تو پھر اس گھر میں بھلا کوئلوں کے نام کیوں نہ رکھے جائیں گے‘
’امیّ آخر آپ کو عقیل چچا۔۔۔۔۔۔‘ بڑے بھیا نے کہنا چاہا تھا۔
’بس ۔ چپ رہو۔۔۔۔۔ اور شکیلہ تم سے کس نے کہا کہ یہاں چلی آؤ۔ تم کو تو اپنی ماں کو ناشتہ کرانے کا کہا تھا نا!‘
شکیلہ باجی دروازے سے ہی واپس چلی گئیں۔ نہ جانے کیوں وہ ہمیشہ اسی وقت ناشتے کے لۓ آتی تھیں جب بڑے بھیاّ ناشتہ کر رہے ہوتے۔ اور بڑے بھیاّ کے ناشتے کی نگرانی کرنے کے لۓ ہمیشہ امیّ چلی آتیں۔ مگر ان کی اس نگرانی میں کوئی زیادہ وقت نہیں لگتا تھا۔ بڑے بھیاّ اٹھ بھی چکے تھے اور جب غفور نے برتن سمیٹے تو ان کی پلیٹ میں اب تک اتنا ہی حلوہ رکھا ہوا تھا۔
انور اور کہکشاں ناشتہ کر کے بڑے بھیاّ کے کمرے میں پھرچلے گۓ ۔۔۔۔۔
’ بڑے بھیاّ! آپ نے بتایا نہیں؟‘
’کیا۔۔۔۔۔؟‘
’وہی ہماری کوئل کا نام!‘
’نام میں کیا رکھا ہے۔ کچھ بھی رکھ دو۔ اے۔ بی۔ سی۔ ڈی‘
انوّ اور کشی کی آنکھیں مرجھا گئیں۔
’اچھاّ دیکھو۔ کوئل کو ہندی میں کہتے ہیں کو کیلا۔ بس یہی نام رکھ دو۔۔‘
’یہ تو بہت لمبا نام ہے بڑے بھیاّ۔‘ مگر انوّ کو نام پسند آ گیا تھا۔
’تو پیار سے کو کی کہہ دیا کرو۔۔۔۔‘
’واہ واہ، کوکی کو کی!!!۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘
انو اور کشی خوش خوش بھاگ گۓ۔
’اے کشی۔ میری بہن۔ اپنے بڑے بھیاّ کو یہ دے آؤ‘ شکیلہ نے کہکشاں کا راستہ روکا۔
گاجر کے حلوے کی پلیٹ تھامتے ہوۓ کہکشاں بولی. ’ جیسے آپ کے تو بڑے بھیاّ ہوتے ہی نہیں۔۔۔۔ ‘
’اور تمھارے لۓ یہ ٹافی۔۔۔۔‘
شکیلہ باجی نے جواب دۓ بغیر لال ریپر میں لپٹی ٹافی اس کی آنکھوں کے سامنے کر دی۔ کہکشاں نے روٹھنے کا سا بہانہ کرتے ہوۓۂ مونہہ موڑ لیا۔ لیکن پھر جانے کیا ہوا کہ کچھ لمحے بعد ہی ٹافی کا ذائقہ اس کے منہہ میں گھل رہا تھا اور شکیلہ باجی کے ہاتھ میں ٹافی کا خالی ریپر چرمرا رہاتھا۔
٭
’دیکھو انوّ بھیا۔۔ یہ کیا؟‘
یہ ٹافی کے کاغذ کی جھلملاتی گڑیا تھی۔
’یہ تو دلہن لگ رہی ہے۔ جیسے منشی جی کی لڑکی نہیں لگ رہی تھی اپنی شادی کے دن۔۔۔۔‘
پھر یہ گڑیا کمرے کی شمالی دیوار میں لگی الماری میں اوپر کے خانے میں سجا کر رکھ دی گئی۔ اس میں تین خانے تھے۔ سب سے نیچے والا کہکشاں کا تھا، درمیان والا انور کا جس میں وہ اپنا ذاتی سرمایہ رکھتا تھا۔ اور سب سے اوپر والے خانے میں دونوں کا مشترکہ سامان رہتا تھا۔ یہ گڑیا دونوں کا مشترکہ خزانہ تھی۔
٭
’کیا کر رہے ہو خاور؟‘
’پہاڑے‘
’کتنے کا؟‘
’تیرہ کا۔۔۔۔ ‘
’ارے اس میں کیا رکھا ہے‘ انور نے شیخی بگھارنی شروع کی۔ ’مجھے تو بیس تک پہاڑے یاد ہیں بیس تک۔۔۔۔ اور آدھا، پواّ، پونا، سوایا سب کچھ۔۔۔۔ ‘
آج کل انور اور کہکشاں کی چھٹیاّں تھیں مگر خاور اب تک اسکول میں داخل نہیں کیا گیا تھا۔ اسے ماسٹر صاحب آ کر گھر پر پڑھاتے تھے۔
’ایسا کرو۔ تم ماسٹر ساحب کو بنۓ کا پہاڑہ سنا دو۔‘ انور نے بے حد سنجیدگی سے مشورہ دیا۔ پھر خود ہی رٹے ہوۓ سبق کی طرح دہرانا شروع کر دیا۔۔۔۔
’بنیا ایکم بنیا
بنیا دونی دال
بنیا تیا تیل
بنیا چوکے چاول
بنیا پنجے پان
؎بنیا چھکےّ چھالیہ
بنیا ستےّ ستوّ
بنیا اٹھےّ آٹا
بنیا نواں نون
بنیا دھام دھنیا‘
’مجھے اڑھائی کا پہاڑہ بھی یاد ہو گیا۔ سناؤں؟‘ اور خاور شروع ہو گیا۔’اڑھائی ایکم اڑھائی۔۔ اڑھائی دونی پانچ ۔۔اڑھائی۔۔۔۔۔۔‘
مگر انور بور ہو گیا۔ ’ختم کرو اسے۔ سنو۔ آج ہم نے کوئل کا نام رکھا ہے۔۔۔۔کوکی۔۔۔۔‘
’کوکی۔ یہ کیا نام ہے؟‘
’بڑے نبھیاّ نے نام تو رکھا تھا کوکیلا۔ جیسے شکیلہ‘
مشال کے لۓ شکیلہ باجی کا نام سامنے ہی تھا۔
’مگر ہم پیار سے اسے کوکی کہیں گے۔۔۔۔۔ ہماری پالتو کوئل ہے نا!‘
’تب تو مزے کی بات ہے۔ ہماری بلیّ کا نام ہے مکیِّ۔۔۔۔۔مکیّ مکیّ!!۔ چہ چہ چہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘
اور میاؤں میاؤں کرتی صندلی بلیّ خاور کے پیر سے لپٹنے لگی۔
’مگر ماسٹر صاحب کہہ رہے تھے کہ مکیّ تو کسی چوہیا کا نام ہوتا ہے‘
خاور کو اپنی بلیّ کے نام پر شک ہوا‘
’تو کیا ہوا۔ امیّ کہتی ہیں نا کہ آنکھ کے اندھے نام نین سکھ‘ انور نے تسلی دی۔
کہکشاں نے موضوع بدلا۔۔۔۔۔’چلو ۔۔۔۔۔باہر چلیں۔ انجیر توڑیں گے۔۔۔۔۔‘
تینوں پھاٹک سے نکل کر انجیروں کے پیڑوں کی طرف جانے والی باغ کی پگڈنڈی پر چلے جا رہے تھے اور خاور گا رہا تھا۔۔
’چل چل چمن کے باغ میں میوہ کھلاؤں گا۔۔۔۔۔‘
’اور امیّ انور کو آوازیں دے رہی تھیں۔۔۔۔۔’ انوّ بیٹا۔ یہ چونیّ لے جاؤ اور بنۓ کے پاس سے چرونجی تو لے آؤ۔ یہ غفورا نہ جانے کہاں مر گیا۔۔۔۔۔‘
٭
ڈگڈگی کی آواز سے انور اور خاور دونوں چونکے۔ ڈگڈگی مسلسل بج رہی تھی۔ مجمع جمع ہونے لگا تھا۔ یہ ایک بھالو والا تھا اور بھالو کے تماشے کے لۓ ان دونوں کا نہ رکنا ایک اہم ترین فریضے سے آنکھیں بند کر لینا تھا۔ بھالو اپنے مالک کے اشارے پر نت نۓ کرتب دکھا رہا تھا۔
’اے کالۓ۔ یہ سب تماشہ کس واسطے؟‘
اور بھالو اپنا پیٹ دکھاتے ہوے سب کے سامنے لیٹ گیا اور پیٹ پر ہاتھ پھیرنے لگا۔
پھر بھالو والا سب سے پیسے مانگنے لگا۔انور نے جیب میں چونیّ محسوس کی۔ پھر جلدی سے خاور کو کھینچا۔ اسے چرونجی یاد آ گئی تھی۔
دونوں بنۓ لی دوکان کی طرف چلنے لگے۔ بس یہ آخری گلی ہی تھی دو گھروں کے درمیان اور اس کے بعد موڑ پر ہی بنۓ کی دوکان۔ مگر اس چھوٹی ی گلی کی وجہ سے ہی انور اکیلا نہیں آیا تھا۔ اس گلی میں ایک ننھی سی طاق تھی اور اس طاق میں ایک ننھی منی سی قبر۔ اس پر سبز رنگ کیا ہوا تھا اور ایک تازہ گلاب کا پھول رکھا تھا۔ دیوار کے ایک سوراخ میں اگربتیاں سلگ رہی تھیں۔ یہ سیدّ صاحب کا مزار تھا۔
’نہ جانے کون پھول اور اگربتیاّں رکھ جاتا ہے یہاں۔ انور! تم نے کبھی سیدّ صاحب کو سلام کیا ہے؟ ‘
’نہیں تو ڈر لگتا ہے۔۔‘
’کہتے ہیں کہ قبروں پر سلام کرنا چاہۓ۔ اسلاّم و علیکم یا اہلِ قبر!‘
’مگر خاور۔ سمجھ میں نہیں آتا کی سیدّ صاحب کی اتنی چھوٹی سی قبر کیوں ہے؟‘ انور کے ذہن میں عقیل چچا کی لمبی چوڑی قبر کی یاد ابھی تازہ تھی۔
’ابا کہتے تھے کہ یہاں پہلے بڑا مزار تھا اور بڑی قبر تھی۔ مگر جس کی زمین تھی، اس نے وہیں مکان بنایا اور بڑامزار توڑ کر اس کی جگہ یہ چھوٹی سی طاق بنا دی۔ ۔۔‘
انور کے لۓ یہ نئ اطلاّع تھی۔ انور کے دماغ کے خزانے میں نہ جانےکتنے اسرار پنہاں تھے۔
’اور میرے اباّ تو ہمیشہ اس قبر کو سلام کرتے ہیں۔۔۔‘
اس نے مزید اطلاّع دی۔
انوّ کی آنکھیں حیرت سے پھٹی رہ گئیں۔ ابھی پچھلے دنوں بنۓ کی دوکان پر سائیکل کی دوکان والے شبراتی نے بتایا تھا کہ اس نے اس مزارپر سلام کیا تو ایک ’رباب‘ والی آواز نے جواب دیا ’وعلیکم اسلام‘ اور شبراتی ڈر کر بھاگ گیا تھا۔
بنۓ کی دوکان سے چرونجی لینے کے بعد موڑ مڑتے ہی پھر سیدّ صاحب زیرِبحث آ گۓ تھے۔اس مزار کو دیکھتے ہی ان کی یہ باتیں لازمی تھیں۔
’مجھ کو تو یہ لگتا ہے کہ سیدّ صاحب تھے ہی ذرا سے آدمی ۔۔۔‘ انورنے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔ اور خاور بھی اس نئ تھیوری پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بعد بولا۔ ’امیّ کہتی ہیں کہ کبوتر بھی سیدّ ہوتے ہیں۔شاید یہ سیدّ صاحب بھی کبوتر ہوں۔‘ انور نے سامنےکی مسجد کے میناروں پر اڑتے بیٹھےکبوتروں پر کچھ خوف سےنظر ڈالی۔ اس موضوع نے نیا رخ اختیار کر لیا تھا۔ آخر انور چپ نہ رہ سکا۔’ چپ رہو اب۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے‘۔ پھر باقی راستہ خاموشی سے ہی طے ہوا تھا۔
٭
بڑے بھیاّ!‘ انور نے بڑےبھیاّ کے گلے میں باہیں ڈال دیں اور کہکشاں نے ان کے ہاتھ سے کتاب چھین لی۔
’کوئی کہانی‘ انوّنےجلدی سے اپنی فرمائش اگل ہی دی۔
بڑےبھیاّ نے عینک اتار کر رکھ ہی دی۔ ’کون سی کہانی بھائی!‘
کوئی سی بھی۔ مگر بھوتوں والی نہیں۔۔۔‘ انور ابھی بھی سیدّ صاحب کے مزار والی گلی میں گھوم رہا تھا۔
پہلے یہ بتائیے آپ نے کبھی سیدّ صاحب کوسلام کیا ہے وہی طاق والے۔۔۔۔؟‘
’ارے وہ بنۓ کی دوکان کے پاس جن کا گلی میں مزار ہے۔‘ بڑے بھیاّ ہنس دئیے۔ ’کیا آج انھوں نے تمھارے سلام کا بھی جواب دے دیا۔۔۔؟‘
انور ے کچھ جواب نہیں دیا‘
’بھئ یہ بھوت پریت کچھ نہیں ہوتے۔۔۔۔سب لوگوں نے ایسے ہی جھوٹے قصےّ بنا لئے ہیں.‘
’سچیّ بڑے بھیاّ!‘ کہکشاں بولی۔ .مگر پریاں تو ہوتی ہیں۔ اچھےّ بچےّ جب رات کو سوتے ہیں تو پریاں ان کے تکۓ کے نیچے ٹافیاں اور چاکلیٹ رکھ جاتی ہیں۔ اور اس دن شکیلہ باجی کہہ رہی تھیں کہ کوئ پھول توڑے تو ایک پری مر جاتی ہے۔ کہا وہ پھول نہیں ہوتا، پری ہوتی ہے؟ ہیں بڑے بھیاّ؟‘
’تمھاری شکیلہ باجی نے کہا ہے تو پھر ٹھیک ہی کہا ہوگا۔ مگر بھائی انگریزی کہانیوں والی پریاں تو مش رومس میں رہتی ہیں۔ وہی جو ہوتی ہے نا کتےّٗ کی چھتری۔۔ اس میں۔ اچھاّ وہ کہانی سنائیں تمھیں جس میں ایک شہزادی کے سر میں کیل ٹھونک کر مینڈکی بنا دیا گیا تھا جادو سے۔‘
’ہاں ہاں بڑے بھیا١۔ وہی۔ کہکشاں خوش ہو کر پریوں کی بات بھول ہی گئ۔
بڑے بھیاّ کی کہانیوں میں سات شہزادے ہوتے تھے یا سات شہزادیاں۔ ساتویں شہزادے کا تیر کسی تالاب میں مینڈکی کے پاس چلا جاتا تھا جس سے اسے شادی کرنی ہوتی تھی۔یہ دوسی بات ہے کہ بعد میں پتہ چلتا تھا کہ وہ بھی شہزادی ہی تھی جسے جادو سے مینڈکی بنا دیا گیا تھا۔ یا پھرکوئی ساتویں شہزادی /شہزادہ اپنی قسمت کا کھانے کی وجہ سے معتوب ہو جاتی تھی/ہو جاتا تھا۔یہ سارے معزول شہزادے اور مظلوم شہزادیاں اپنےاٗجاڑ محلوں میں اپنی قسمت کا ماتم کرنے کے لۓ رہ جاتے تھے۔ انھیں ان ماتم گاہوں کے حصار کے باہر کا کچھ پتہ نہ تھا جہاں روشنیاں تھیں، رنگ تھے، سرٗ تھے۔
’تو پھر بادشاہ نے کہا کہ جس شہزادے کا تیر جس طرف جاۓ گا وہیں اس کی شادی کر دی جاۓ گی۔ پہلے شہزادے کا تیر شمال کی طرف گیا، اور وہاں ………‘
انور سوچ رہا تھا کہ دنیا بھر کی دادی اماّئیں اور نانی اماّئیں ایسی ہی کہانیاں سناتی ہیں۔ ہماری نانی دادی نہیں مگر بڑے بھیاّ نے ضرور اپنی نانی دادی سے ہی یہ سب کہانیاں سن رکھی ہوں گی۔
’دوسرے شہزادے کا تیر گیا جنوب کی طرف۔ تم جانتی ہو کشی شمال جنوب۔ جسے انگریزی میں نارتھ ساؤتھ کہتے ہیں۔‘ بڑے بھیاّ شمال جنوب سمجھانے لگے جیسا کہ ان کی عادت تھی۔ مگر انور کے ذہن میں گرمیوں کی ایک دوپہری چکرّ لگا رہی تھی۔
٭
چچیّ بی اور امیّ نے آنگن میں کچیّ کچیّ مگر بڑی بڑی امبیوں کا ڈھیر لگا رکھا تھا۔ چچیّ بی مزے سے بڑے سے سروطے سے کھٹا کھٹ ان کے دو دو حصےّ کۓ جا رہی تھیں۔ انور اور کہکشاں ان کی ’بجلیاں‘ نکال رہے تھے اور جمع کرتے جا رہے تھے۔
’بجلی بجلی میرا بیاہ کدھر؟‘
انور نے امبیا کی بجلی کو پنجے میں پکڑ کر پھسلایا اور بجلی اچک کر آنگن کے پار کھڑکی سے ٹکرائی۔ اور اسی لمحے کھڑکی کھلی۔۔
’انو بھیاّ۔ کشی کہاں ہے؟‘۔ یہ صبیحہ تھی۔
٭
سنو خاور۔ رات مجھ کو بڑا ڈر لگا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے مجھے سیدّ صاحب سلام کا جواب دے رہے ہیں۔وعلیکم اسلّام‘
’وہ ضرور جمعراتی ہوگا۔ ہمیشہ اسلام و علیکم کی جگہ وعلیکم اسلام کہتا ہےبے وقوف۔ ارے وہی جمعراتی جس نے اس دن کوتوالی کے پیچھے سر کٹا دیکھا تھا۔۔۔۔‘
’سر کٹا۔۔۔۔؟‘
’ہاں جناب۔ جمعراتی بتا رہا تھا کہ اس نے کیا دیکھا کہ کوتوالی کے پیچھے جو پیپل کا پیڑ ہے، اس سے کود کر سر کٹااترا اور جمعراتی سے پوچھنے لگا ۔۔۔’تو نے دیکھا ہے اس راستے میں کہیں میرا سر تو نہیں پڑا؟‘
’تو کیاوہ آدمی تھا جس کا سر نہیں تھا؟‘
’اور کیا ۔ ایسا ہی ہوگا، گردن تک آدمی، سر کٹا ہوا۔ اور جب وہ وہاں سے ڈر کربھاگا ہےتو پتنگوں والے چوراہے پر اسے سڑک پر کٹا ہوا سر بھی پڑا ملا۔ اور جناب ! اس نے تو پِچھل پیریاں بھی دیکھی ہیں!!!‘
’یعنی چڑیلیں۔ہیں خاور!!‘
’ ہاں وہ ٹرک چلاتا ہے نا۔ ایک رات وہ کسی سنسان سڑک سے گزر رہا تھا کہ اس نے جنگل میں روشنی دیکھی۔ اسے بھوک لگ رہی تھی۔ اس نے سوچا کہ کوئی گاؤں ہوگا۔ وہاں شاید اسے چاۓ مَل جاۓ۔ مگر جب روشنی کے قریب گیا تو وہاں کچھ عورتیں ناچ رہی تھیں، اور ان کے پیر الٹے تھے---- ایڑی سامنے اور پنجے پیچھے۔‘
’جیسے ہماری اردو کی کتان میں ایک ڈاکٹر صاحب نے گڑیا کے پیر الٹے سی دیۓ تھے‘
’ہاں ہاں ایسی ہی ہوتی ہیں پچھل پیریاں۔ اور انہیں کو چڑیل بھی کہتے ہیں۔خود ہمارے ابّا نے چڑیلوں کے پیروں کی پائل کی آواز سنی ہے۔‘
’بس کرو خاور۔۔۔۔۔ کیا مار بھوتوں چڑیلوں کی باتیں کۓجا رہے ہو۔ میرا تو ڈر کے مارے دم نکلا جا رہا ہے۔‘
’کیا ہو گیا انوّ بھیاّ ۔۔۔۔! صبیحہ جو ابھی آئی تھی، انور کے جملے کا آخری حصہّ سن کر پریشان سی ہو اٹھی۔
’بھوت چڑیلوں کی باتیں ہو رہی ہیں۔چیاؤں۔۔۔۔۔!‘
اور ونور نے صبیحہ کو ڈرانے کی کوشش کی حالاں کہ خود اس کا دلاب تک کانپ رہا تھا۔
٭
’سات سمندر گوبھی چندر، بول میری مثھلی کتنا پانی۔۔۔۔؟‘
.اتنا پانی۔۔۔‘
صبیحہ اور کہکشاں نے محلےّ کی کئی بچیوّں کو اکٹھاّ کر رکھا تھا اور کھیل زوروں میں جاری تھا کہ امیّ نے آواز لگائی۔۔۔
’دونوں وقت ملِ رہے ہیں۔ اب بند بھی کرو‘ اور مچھلی نہ جانے کتنے پانی میں آ کر رک گئی۔ سورج ڈوب رہا تھا۔ خاور اور انور دور کھڑے آسمان پر اڑتے بگولوں کی قطار دیکھ رہے تھے۔
’اللہ دے رسول بخش۔ بگلے بگلے پھول بخش ‘
ان کی آنکھیں بند تھیں اور ہونٹ مستقل گردان کیے جا رہے تھے۔ پھر انور نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں اور ’شگون‘ کے لیے پہلے بگلوں کی طرف دیکھا جو مشرق کی طرف جنگلوں میں دھیرے دھیرے گم ہوتے جا رہے تھے اور پھر اپنےہاتھوں کی انگلیوں کے سارے ناخنوں میں کچھ تلاش کیا۔
’دیکھو دیکھو ‘ خاور نے بائیں ہاتھ کی بیچ کی انگلی نچائی جس کے ناخن پر خشخاش کے دانے کے برابر داغ پڑ گیا تھا۔ انور کا دل بجھ سا گیا۔ بگلوں نے اسے کوئی پھول نہیں بخشا تھا۔ اس کے ہاتھ کی کسی انگلی کے ناخن میں کوئی داغ نہیں تھا۔وہ دھیرے دھیرے نپے تلے قدموں سے برامدے کی طرف آیا اور وہاں پڑی چار پائی پر بیٹھ کر اپنے ناخن پھر سے غور سے دیکھنے لگا۔
’ہماری بیچ کی انگلی پکڑو۔۔ ‘ خاور نے دائیں ہاتھ کی انگلیاں توڑ مروڑکر بائیں ہاتھ کے پیالے میں پیش کر دیں۔ انور سوچ میں پڑ گیا۔ بایاں ہاتھ ہوتا تو بگلے کے بخشے پھول سے بیچ کی انگلی پہچان بھی لیتا۔
’شاید یہ ہے۔ نہیں۔ یہ تو انگوٹھا ہے۔ یہ چھوٹی انگلی ہے جس میں کل میرے سامنے گلاب کے پھول توڑتے ہوۓ تمھارے کانٹا چبھ گیا تھا۔ ہاں۔ یہ رہی۔۔۔‘
اور اب انور مسکرا رہا تھا۔ اس نے صحیح انگلی پکڑی تھی۔ اب اس نے بھی فوراً اپنی بیچ کی ازنگلی پکڑوانے کے لۓخاور کے سامنے دوسرے ہاتھ میں انگلیاں اس طرح چھپا کر پیش کر دیں کہ ان کے صرف سرِے نظر آ رہے تھے۔
’یہ ہے۔۔۔ ہیں۔۔۔۔؟‘
مگر خاور کی آنکھوں کی چمک معدوم ہو چکی تھی۔ یہ انور کی چھوٹی انگلی کے پاس والی انگلی تھی، بیچ کی نہیں۔
٭
شکیلہ باجی اپنی سہیلیوں کے ساتھ تاش کھیل رہی تھیں۔غلام بادشاہ کا کھیل عروج پر تھا کہ شکیلہ باجی غلام بن گئیں۔
’ہم توبھئی بادشاہ ہیں‘۔ رعنا آپا نے فخر سے کہا۔
’اور ہم تمھارے وزیر‘ قدسیہ باجی بولیں۔
’ہم تو بھئی سدا کے غلام۔ایکو بار بادشاہ نہیں بنے۔ بھولے بھٹکے وزیر ضرور بن چکے ہیں۔‘ شکیلہ باجی نے تاش کے پتےّ سمیٹ دیۓ۔ ’اب ختم کریں۔‘
’ہم لوگ کھیلیں؟‘ کہکشاں نے اجازت مانگی۔
’خراب مت کرنا پتےّ۔۔۔۔‘
شکیلہ باجی اور دوسری لڑکیاں اٹھ کر برامدے میں چلی گئیں۔
’آؤ تاش کے گھر بنائیں۔ ‘ صبیحہ نے تجویز کیا۔
’دیکھو کس کا گھر اونچا بنتا ہے۔‘ کہکشاں نے بازی لگائی۔ صبیحہ نے جلدی جلدی تاش کے چار پتوّں کو ترچھا کر کے کھڑا کیا اور ان کے اوپر ایک اور پتے کی چھت بنا دی۔ دوسری ’منزل‘ بھی اسی طرح بن گئی۔ اور اب تیسری منزل کے پتے لگا رہی تھی کہکشاں نے ابھی دوسری منزل کے پتے ہی سجاۓ تھے کہ سارا گھر فرش آ رہا۔ صبیحہ کی بھی تیسری منزل کی کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔ مگر صبیحہ کا تاش کا گھر پہلے ہی گرِ چکا تھا۔’ آہا جی۔۔۔ ہم جیت گۓ۔۔ ہمارا گھر دو منزلوں کا!!!‘صبیحہ نے تالی بجائی
’’ہم سے نہیں بنتے ایسے اونچے اونچے گھر۔ ہمارے لیے تو چھوٹا سا گھر ہی کافی ہے۔‘
اداسی سے کہکشاں نے پتےّ پھر سمیٹ دیۓ اور چپ چاپ بڑے کمرے کی الماری پر رکھ آئی۔ وہاں امیّ ایک ساں خاور کی اماّں سے باتیں کیے جا رہی تھیں۔
’بھئی۔۔ مجھے تو ایک آنکھ نہیں بھاتا بھابھی کا رہنا۔ اور پھر اس پر یہ شکیلہ بھی۔ مظہر کے اباّ کو اپنے بھائی کا خاندان بھلے ہی عزیز ہو، مگر میں تو برداشت نہیں کرنے کی!! ‘
’مگر ایمان کی بات ہے کہ شکیلہ لاکھ گنوں کی لڑکی ہے۔‘
’تو کیا میں اپنے مظہر سے اسے بیاہ دوں؟ نہ نہ!! یہ تو نہیں ہونے کا۔ایک تو عقیل بھائی نے اپنی پسند سے رذیلوں کی لڑکی اٹھائی اوراس کی گود بھری۔ اور جب لڑکی جوان ہونے لگی تو گولی کھا کر خود قبر کی گود میں سو گۓ۔ شکیلہ میں بھی اپنے خاندان کی خصلتیں تو آئیں گی ہی۔ ڈوم جو ٹھہریں۔ خود ہی سن لو۔۔۔‘
اور شکیلہ باجی کے کمرے سے مدھمّ سروں میں میٹھی میٹھی آواز آ رہی تھی۔۔۔
اے ری۔۔۔ آلی پیا بنے۔ سکھی کل نہ پرت موہے گھری پل چھِن دِن‘
٭
’شکیلہ باجی!! ‘ کہکشاں نے شکیلہ باجی کی آنکھیں پیچھے سے اپنے ہاتھوں سےبند کرلیں۔
’روٹی جل جاۓ گی بھئی۔ بد تمیزی مت کرو کشی‘
’اچھیّ باجی!! ایک روٹی ہم بھی پکائیں گے‘
کہکشاخ انتظار کرتی رہی۔ اور جب آٹے کی پرات میں آخری دو پیڑے بچے تو شکیلہ باجی نے دونوں پیڑوں سے تھوڑا تھوڑا سا آتا نکالا اور تیسرا چھوٹا پیڑا بنا دیا۔
’یہ تمھارے لئے‘ اور ایک ایک کر کے باقی دونوں روٹیاں بیلنے لگیں۔ اور پھر بیلن پٹرا کہکشاں کے سامنے تھا۔
’ہاتھ دھو کر آئی ہو نا؟؟ ‘شکیلہ باجی نے اپنے سگھڑاپے کا ثبوت دیا اور کچھ بزرگی بھی جتائی۔
’ہاں باجی۔ ‘کہکشاں نے روٹی گول کرنے کی کوشش کی مگر لنکا کا نقشہ ہی بن سکا۔ پھر بھی کہکشاں اس وقت بہت خوش تھی جب اس کی بیلی ہوئی روٹی توے پر سنک رہی تھی۔ اسے یک لخت محسوس ہوا اب اسے کھانا پکانا آ گیا ہے۔ چاۓ بنانی تو اس نے پہلے ہی سیکھ لی تھی کہ پہلے پانی کیتلی میں ابالا جاۓ اور پھر چاۓ کی پتیّ اسی میں ڈال کر اتار لو۔ اور پیالی میں دودھ اور چینی ملا کر چاۓ کا پانی ڈال دو۔ بس چاۓ تیاّر۔ اب کبھی ضرورت پڑی تو کم از کم خود چاۓ بنا ک اس کے ساتھ روٹی تو کھائی ہی جا سکے گی۔ بھوکے تو نہیں رہیں گے۔ اس نے دلِ ہی دلِ میں دعا مانگی کہ کسی دن گھر کے سب بڑے کہیں چلے جائیں تو چاۓ اور روٹی سے ناشتہ کیا جاۓ اور انور، خاور اور صبیحہ کی دعوت بھی کی جاۓ۔
٭
’امیّ ! بھوک لگ رہی ہے‘
انوّ باورچی خانے میں ہی چلا آیا تھا۔ دروازے پر کھڑی امیّ بوا اور شکیلہ باجی کو ہدایتیں دے رہی تھیں۔ بوا برتن بھی دھوتی جا رہی تھیں۔ تانبے اور چینی کے برتنوں کی کھنک کے ساتھ المونیم کے برتن دھلتے وقت عجیب بے سری سی آواز پیدا کر رہے تھے۔ بوا برتن دھو کر باورچی خانے میں رکھی میز پر سجاۓ جا رہی تھیں۔ ان آواز وں میں شکیلہ باجی کی چوڑیوں کی کھنکھناہٹ بھی تھی جنھیں وہ آٹے میں سنے ہاتھوں سے اوپر چڑھا لیتی تھیں مگر آٹا گوندھتے ہوۓ چوڑیاں بار بار سامنے کی طرف سرک آتیں ۔
’تم چوڑیاں نہ پہنو تو اب تک دو چار روٹیاں تیار ہو چکی ہوتیں۔۔‘ امیّ باورچی خانے سے باہر چلی گئیں۔
’بس ابھی دو چار روٹیاں پک جائیں گی تو تم کھانا کھانے بیٹھ جانا۔‘ شکیلہ باجی نے انور کو تسلیّ دی اور چوڑیاں اتار کر طاق پر ایک طرف رکھ کر پھر تیزی سے آٹا گوندھنے لگیں۔ انور انھیں دیکھتا رہا۔ آٹا گوندھنے کے بعد اس کی نظریں لکڑی کے پٹرے پر رہیں۔ وہ غور سے دیکھتا رہا کہ کس طرح شکیلہ باجی آٹے کے پیڑے بنا کر خشکی میں دبا کر ہاتھ سے پھیلاتی ہیں اور پھر پٹرے پر رکھ کر بیلن سے گول بیل دیتی ہیں۔ اور پھر ایک ہلکی سی جنبش اور ایک چاند توے کی سیاہ آسمان پر چمک جاتا۔
پھر بوا نے اس کے سامنے کھانا لا کر رکھ دیا۔ ایک چھوٹی تپائی باورچی خانے میں ایسی ضرورت کے لۓ رہتی تھی۔
’گوشت میں ابھی پانی نہیں ڈالا ہے۔ بھنا ہوا ہی کھا لو۔ ‘ شکیلہ باجی نے اس کی پلیٹ میں ایک گرم گرم روٹی رکھ دی اور انور کھانے لگا اور دیکھتا رہا روٹیوں سے زیادی شکیلہ باجی کے ہاتھوں کو۔ اور کھانا ختم کر کے بھی یہی کھیل دیکھتا رہا۔ آٹے کی پیڑے پرات میں کم ہوتے گۓ۔ اور انور کھیل ختم ہونے کے خیال سے افسردہ ہونے لگا۔ پھر اچانک ایک خوش گوار احساس نے اسے ایک اور لمحے کا منتظر کر دیا۔ روٹی پکا کر شکیلہ باجی نے توا چولھے کے کنارے اوندھا دیا تھا۔
’توا ہنس رہا ہے!! توا ہنس رہا ہے!!‘
توے کے اندر والے حصےّ میں چنگاریوں کے سرخ ستارے جھلملا رہے تھے۔
’راکھ ڈالو۔ توے کا جلنا اچھاّ نہیں ہوتا۔ ‘ بوا نے مشورہ دے کر خود ہی جلدی سے توے پر راکھ کی مٹھیّ بکھیردی۔
٭
امیّ اور چچیّ بی دونوں اپنے سامنے کدو کش رکھےگاجریں کدو کش کر رہی تھیں۔
'آہا۔۔گاجرکا حلوہ !!' کہکشاں نے سوچا اور اس کے مونہہ میں پانی بھر آیا۔ وہ خاموشی سے امیّ کے پاس بیٹھی یہ تماشہ دیکھتی رہی۔ صبیحہ آنگن میں شکیلہ باجی کا دوپٹہّ سکھانے میں مدد دے رہی تھی جو انھوں نے ابھی شنجرفی رنگ میں رنگا تھا۔ اور امی چچیّ بی سے گاجر چھیلتے چھیلتے باتیں کئے جا رہی تھیں۔
"سبزیوں والا باغ تو بکِ چکا۔ اب کیا گاجروں کا حلوہ بنے۔ ایک زمانہ تھا کہ میں نے انھیں ہاتھوں سے من من بھر گاجروں کا حلوہ بنایا ہے۔"
"وہ زمانہ تو کب کا لد چکا دلہن۔۔۔" چچیّ بی کی آنکھوں کے سامنے سے ماضی کے سایوں کا جلوس گزرنے لگا۔
"اور اب ظاہر ہے کہ گاجریں خرید کر تھوڑا سا حلوہ بنایا جائے اور اس میں بھی غیر حصہّ بٹا لیں تو کیا ملے گا بچوں کو۔۔؟"
امیّ نے آخری گاجر کدوکش کر کے کدوکش الٹا کر کے جھٹکتے ہوئے کنکھیوں سے چچی بی کی نورانی آنکھوں میں مہیب سایوں کا جلوس گزرتے دیکھا۔ یہ صفا ان پر چوٹ تھی۔
ّنگن میں دھوپ تیز ہو گئی تھی، شکیلہ باجی کا دوپٹہّ سوکھ چکا تھا، وہ دھیرے دھیرے قدموں سے برامدے میں چلی آئی تھیں اور امیّ اور چچی بی کی باتوں کو خاموشی سے ایک لمحہ سن کر کچھ سوچتے ہوئے تیزی سے اپنے کمرے کی طرف چلی گئیں ۔ ملحقہ کمرے سے دوسری ہی آوازیں ان کو دعوتِ سامعہ دے رہی تھیں۔
٭
"اباّ میاں! گیہوں کی کٹائی اب قریب ہے۔۔۔۔۔۔"
"بھئی۔ مجھ سے مشورہ لینے کی کیا ضرورت۔ میں ٹھہرا مفلوج آدمی۔ تم ہی منشی فضل دین سے کہہ کر آدمیوں کو لگوالو۔"
"اباّ میاں، میں بھی یہی کہنے جا رہا تھا کہ منشی جی کو بلوا لیتے ہیں۔ آپ خود ہی ان کو حکم دے دیجئے گا، وہ سنبھال لیں گے۔ اس لئے کہ اب میرا کھیتوں میں جانے کا ارادہ نہیں ہے"
"بھائی، تم نے خود ہی تو کھیتوں میں کام کرنے کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا ۔ تم کو پڑھ لکھ کر بھی ھل چلانا زیادہ پسند تھا کہ گوروں کی نوکری تم کرنا نہیں چاہتے"
ؔاباّ میاں! میں آزادی کے لئے کام کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔"
اباّ میاں کے ذہن پر 'زمیںدار' اخبار کی کئی سرخیاں دھول اڑاتی تیز رفتار بگھیّوں کی طرح گزر گئیں۔
'دہشت پسندوں کے گروہ کی گرفتاری'
'خاکسار تحریک'
'مسلم لیگ کے جلسے میں کانگریسیوں کی رخنہ اندازی'
'غسل خانہ خارجِ مسجد ہے۔ مفتی کان پور کا بیان'
آزاد ہند فوج۔۔۔ دہشت پسند۔۔۔مسلم لیگ۔۔۔ کانگریس۔۔۔عقیل بھائی۔۔۔۔ محمدّ علی۔۔۔۔۔
'میں شیروانی اور کرتے کے بٹن بھی کھول دیتا ہوں کہ گولی اور میرے سینے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔۔'
اباّ میاں! میں آزادی کے لئے کام کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔" ان کے ذہن میں پھر مظہر کی آواز گونجی۔ انور چپ چاپ کھڑا بڑے بھیاّ اور اباّ کو دیکھتا رہا۔ اباّ میاں کی ایک بوڑھی سفیدلٹ گھنی مونچھوں پر آ گری جسے انھوں نے اپنے رومال والے ہاتھ سے سر کی طرف پھینکتے ہوئے آنکھوں کے گوشے صاف کئے۔
"تم جو بھی کرو، حق کے لئے کرو۔ تم اپنے عقیل چچا کے بھتیجے ہو. اس صغیر اللہ کی اولاد ہو جسے سن ستاّون میں گوروں کا مقابلہ کرنے پر انعام کے طور پر سرکار سے یہ زمینیں ملی تھیں جن کی پیداوار تم اب تک کھاتے رہے ہو۔ حالانکہ اب ہم کو خود ہی اپنی رعایا۔۔۔۔۔۔۔‘ اباّ میاں رکے۔ انور دروازے کی اوٹ میں چپ چاپ کھڑا یہ پر اسرار باتیں سن رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ دنیا میں اب بھی کتنی باتیں ایسی ہیں جو نہ سمجھ میں آنے والی ہیں۔ سیدّ صاحب، سر کٹے اور پچھل پائیاں تو زندگی کا ضروری جز اور بے حد حقیقی چیزیں تھیں۔ ایک دم سامنے کی باتیں جو آسانی سے سمجھ میں آ جاتی تھیں۔ مگر یہ باتیں!!! دس گیارہ سال کی عمر میں تو اسے یہ سب باتیں سمجھ میں آجانی چاہئے اور اپنے سے چھوٹے خاور اور صبیحہ کو سمجھا بھی دینا چاہۓ تھا۔
٭
انور ۔کہکشاں اور خاور۔صبیحہ کے گھروں کے آنگنوں میں کھلنے والی مشترکہ کھڑکی دن میں کئی بار کھلتی۔ کبھی ایک طرف سے بند ہوتی تو دوسری طرف سے کھڑکی بجا کر دستک دی جاتی۔ چاروں کے کان اس دستک کی پہچان میں بے حد تیز تھے کی ان کی آمد و رفت کا تو راستہ ہی یہ تھا۔ مختلف چیزوں کا تبادلہ ان کی ماؤں میں ہوتا اور یہ فریضہ بھی ان چاروں میں سے کسی کا ہوتا۔
اس دن بے حد صبح شاید چاروں ابھی سو ہی رہے تھے کہ کھڑکی پر دستک ہوئی تھی۔ آنگن کے پار کوٹھری میں سوئی ہوئی بوا اور غفور کی آنکھ کھل گئی۔ غفور نے کھڑکی کھولی۔ خاور کی امیّ پریشان سی کھڑی تھیں۔ ان کے ہاتھ میں ٹیلی گرام تھا۔۔۔
’ذرا جلدی سے مظہر میاں سے یہ تار پڑھوا دو۔ سو رہے ہوں تو جگا دو۔۔‘
غفور تار لے کر بڑے بھیاّ کے کمرے کی طرف اتنی تیزی سے گیا کہ کئی لوگوں کی آنکھ کھل گئی۔
’ بڑے بھیاّ!‘ اس نے دروازے پر دستک دی۔ اندر سے کوئی آواز نہ آئی۔ ’ بڑے بھیاّ!‘ اس نے دروازہ بجانے کے لۓ پھر دروازے پر ہاتھ رکھا تو تھوڑے دھکےّ سے دروازہ کھکل گیا جو اندر سے بند نہیں تھا۔ بڑے بھیاّ کمرے میں نہیں تھے۔ ان کے بستر پر بے شمار سلوٹیں پڑی ہوئی تھیں اور اباّ میاں پکار رہے تھے۔۔۔
’مظہر کو ابھی مت اٹھاؤ۔ تار مجھے دو میں پڑھ دیتا ہوں۔۔۔‘
غفور نے ٹیلی گرام ان کے ہاتھ میں دے دیا۔ اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا، اباّ میاں نے تار بلند آواز میں پڑھا۔۔۔
’’ JAMAL EXPIRED(.) COME SOON رام پور سے آیا ہے یہ تار۔ بھابھی سے کہو کہ ان کے بھائی جمال کا انتقال ہو گیا ہے۔ انّ لِلّلہ واِنَّ اِلیہِ راجعون۔ ان کو فوراً بلایا ہے۔‘‘
’مگرصاحب بڑے بھیاّ؟؟؟‘
انور اور کہکشاں بڑے بھیاّ کے کمرے میں جھانک رہے تھے۔ کل شام کو انھوں نے وعدہ کیا تھا کہ اگر کل صبح وہ انھیں سلام کرنے آئیں گے تو ان کو انعام دیا جاۓ گا۔ انور کی فرمائش کلر باکس کی تھی اور کہکشاں کی تصویروں والی کہانی کی کتاب کی۔ مگر بڑے بھیا نہ جانے کہاں غائب تھے۔ البتہّ ان کے سرہانے کی تپائی پر ایک کلر باکس اور دو کہانی کی کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ انور نے جلدی سے رنگ کا ڈبہّ اٹھا لیا اور اسے ایسا محسوس ہوا جیسے کلر باکس پر بنا خرگوش بھاگتے بھاگتے دور سرسوں کے کھیتوں میں نکل گیا ہے اور صبیحہ کی کتابوں کے سر ورق پر بنے پھولوں پر کوئی سچ مچ کی تتلی آ بیٹھی ہے جو لمحے بھر بعد اڑ جاۓ گی۔
٭
پھر ان چاتروں کی چوکڑی میں ایک پانچواں سوار جنید شامل ہو گیا تھا۔ جنید جسے خاور کی امیّ رام پور سے لے آئی تھیں۔ ان کے مرحوم بھائی کی یاد گار جن کا ٹرک کے حادثے میں انتقال ہو گیا تھا۔ وہ بڑےفخر سے اپنے شہر رام پور کی باتیں بتا رہا تھا۔ ۔۔
’’اور ہمارے اسکول کے سامنے اتنا بڑا میدان تھا۔۔ جی ہاں جناب کہ گلیّ ڈنڈا کھیلنے میں مجال ہے جو گلیّ کبھی ہزار ہو جاۓ۔ ایک بار میں نے ہی گلیّ ہزار کی تھی۔ پہلے ہی ٹلٗ میں گلیّ آدھے میدان کو پار کر گئی تھی۔ پھر دوسرے کے بعد تیسرا ٹلٗ جو میں نے مارا تو گلیّ میدان کے باہر اسپتال کی چھت پر۔۔!!! اس دن کھیل میں اتنا مزا آیا تھا کہ گھر جانا یاد ہی نہیں رہا۔ اس دن ابا جان نے بہت مارا تھا۔۔۔‘‘
’’اباّ جان تم کو بہت مارتے ہیں کیا۔۔۔؟‘‘انور نے تعجب سے پوچھا۔
’’ہاں۔۔۔۔ بہت مارتے تھے‘‘ اس نے ’تھے ‘پر زور دیا۔ ’’اب تو وہ اپنی قبر میں گھسنے والے بجوّوں کو مارتے ہوں گے ‘‘۔ وہ استہزا سے ہنسا۔
’’اور امی ۔۔؟‘‘ انور کو جمال ماموں کی وفات کی بات بھول جانے پر شرمندگی کا احساس ہوا۔
’’اماں کا تو یاد ہی نہیں۔ میں بہت چھوٹا تھا کہ ایک دن وہ اسپتال گئیں تو واپس ہی نہیں آئیں۔ گھر میں خالہ تھیں۔ وہ نہ مارتی تھیں نہ پیار ہی کرتی تھیں‘‘ انور کو شکیلہ باجی کی بات یاد آئی۔ انھوں نے کہا تھا کہ ایک بار ان کے ابوّ ۔ عقیل چچا۔ اسپتال گۓ تو واپس ہی نہیں آۓ‘‘۔
’’یہ لوگ اسپتال کیوں جاتے ہیں جب واپس نہیں آ سکتے ‘‘۔ خاور نے اپنی راۓ ظاہر کی ۔
’’اسپتال تو علاج کے لۓ ہوتا ہے بیوقوف۔ مگر کسی کسی کا علاج ٹھیک نہیں ہو پاتا تو وہ بیماری سے مر جاتا ہے۔ دل دھڑکنا بند ہو جاتا ہے اور سانس رک جاتی ہے۔ پھر لوگ لے جاکر قبر میں لٹا دیتے ہیں۔‘‘ جنید نے نہایت عقل مندی اور بزرگی کا ثبوت دیا۔
اب تو شاید جنید بھی میرے ساتھ اسکول میں داخل کیا جاۓ گا۔ انور نے خوشی سے سوچا۔ مگر جنید نے ہی ایک بار بتایا تھاکہ وہ تو اپنے کسی دوست کے گھر سے لاکر اپنے سے اگلے درجے کی کتابیں بھی پڑھ چکا تھا۔ نئی کلاس شروع ہوتے ہی نئی نئی کتابیں آتی تھیں اور وہ پہلی ہی رات میں سارے سال کا کورس ختم کر دیتا تھا۔ اور اگلے اگلے دنوں میں دوسرے درجوں کی کتابیں مانگ کر لاتا تھا۔ کتنا قابل تھا بھئی یہ جنید!!
’’تم اسکول میں پڑھو گے۔۔؟‘‘ انور نے پوچھا۔
’’ہاں۔ امتحان پاس کرنے کے لۓ تو اسکول جانا ہی ہوگا۔ اور تمھارے اسکول کی ہی بات ہو رہی ہے۔ پھوپھا جان بتا رہے تھے۔ مگر بھائی ۔۔۔۔۔اب تو میں کتابیں لکھوں گا٬!!‘‘
’کیا مطلب؟‘خاور کی سمجھ میں بات نہیں آئی۔ ’
’ارے، یہ جتنی کتابیں ہوتی ہیں نا، رسالوں میں کہانیاں نظمیں ہوتی ہیں، یہ لوگ خود ہی تو لکھتے ہیں ہم تم جیسے۔ میری دو تین کہانیاں ’پھلواری‘ میں چھپ بھی چکی ہیں۔....‘
’پھلواری۔۔۔؟‘
’ارے وہ بچوںّ کا رسالہ ہوتا ہے نا۔ میں کچھ پرچے لے کر آیا ہوں،۔ دیکھ لینا۔ مزے کی کہانیاں نظمیں ہوتی ہیں اس میں۔ اب تو میں کہانیوں کی کتابیں لکھنے کی سوچ رہا ہوں۔۔‘
خاور اور انور نےجنید کو دفعتاً اپنے سے بے حد بہتر محسوس کیا اور احساسِ کم تری سے محجوب ہو کر جدا پو گۓ۔
٭
انور نے آ کر حسبِ معمول بڑے بھیا کے کمرے میں جھانکا۔ ان کا کمرہ ترتیب سے سجا دیا گیا تھا۔ مینٹل پیس پر ان کی بکھرے بالوں والی تصویر مسکرا رہی تھی۔ بستر قرینے سے لگا ہواتھا۔ سرہانے کے دریچے سے ہوا کے ساتھ کمرے میں گھس آۓ عشق پیچاں کے پتےّ شکیلہ باجی کے چہرے کو سہلا رہے تھےاور ان کی بے حد چمکیلی آنکھوں کے بھیگے کناروں سے اپنی پیاس بجھا رہے تھے۔ نہ جانے کب سےشکیلہ باجی وہاں کھڑی تھیں۔اور کب تک کھڑکی کے پاس کھڑی رہیں۔ نہ جانے کب تک وہاں انوّ شکیلہ باجی کو گم صم کھڑا دیکھتا رہا اور بڑے بھیاّ تصوہر میں مسکراتے رہے۔
٭
سردی کی مختصرچھٹّیوں کے بعد اسکول پھر کھل گۓ تھے اور دھیرے دھیرے گرمیاں بھی آ گئیں۔ اور ایک دن پانچوں سوار چونکے تو ان کو یہ احساس ہوا کہ آج کل ان کو بہت فرصت ہے۔ امتحان نزدیک سہی، مگر دن بہت بڑا ہے۔ اسکول بھی صبح سویرے کا ہو گیا تھا اور ١١ بجے چھٹیٓ ہو جاتی تھی۔ باقی دن بھر خوب لطف اٹھاۓ جا سکتے ہیں۔ انور، خاور اور جنید طویل ترین راستے سے اسکول سے لوٹا کرتے۔ راستے میں کتنی دل چسپیاں بھی تو بکھری پڑی تھیں!!۔ پتنگ والے چوراہے پر رنگ برنگی پتنگوں کے علاوہ چورن والے کا خوانچہ بھی ہوتا تھا۔۔ چورن میں تو شاید ان کو اتنا ذائقہ محسوس نہیں تھا مگر چورن والا چورن پر کچھ چیز ڈال کر جب آگ دکھاتا تھا تو اس ننھے سے شعلے کے تماشے میں ان کے چورن کی ساری قیمت وصول ہو جاتی تھی۔ اور اس نیک با سعادت فرض کی ادائیگی میں اکثر جیب کا ایک ایک پیسہ خرچ کر دیتے تھے جو ان کو اسکول کے وقفے میں خرچ کرنے کے لۓ دیا جاتا تھا۔
پھر بڑی مسجد کے پاس والا پیپل کا پیڑ تھا۔ جس کی ضڑوں کے پاس پتھرّوں میں گیرو لگا ہواتھا اور آس پاس کے ہندو گھروں کی عورتیں ناریل توڑ کر یا دودھ اور پانی بہا کر اس کی پوجا کرتی تھیں۔ اورجس کے سو شاخہ تنے سے ایسا منظر بنتا تھا جیسے کرشن جی اپنے مخصوص پوز میں ایک ٹانگ دوسری پر رکھے بانسری بجا رہے ہوں اور مسجد کے مناروں پر کبوتر۔ سیدّ صاحب!۔ اور تھوڑا آگے بسم اللہ ہوٹل پر ھبنے والے ریکارڈ ’’تیری گٹھری میں لاگا چور مسافر جاگ ذرا‘‘ اور اس کے ساتھ آواز ملا کر وہ گاتے۔۔۔۔’’مسافر بھاگ ذرا‘‘ اور خود بھی بگھاگتے ہوۓ آگے بڑھ جاتے۔ گھر آ کر کھانا کھاتے۔ پھر ساری دوپہر پڑی تھی۔ دوپہر کھانے کے بعد سارے بزرگ آرام کرتے تھے۔
ایسی ہی ایک گرم دو پہر کو انور نے اپنے کمرے سے نکل کر دوسرے کمروں میں جھانکا۔ چچیّ بی گہری نیند سو رہی تھیں۔ اور شاید ایسے ہی خواب دیکھ رہی تھیں جو وہ ہمیشہ امیّ کو سناتیں اور امی اپنا کام کرتے کرتے بے دھیانی سے ’ہاں۔ ہوں‘ کرتی رہتیں۔
’’..کیا دیکھتی ہوں کہ ایک کنواں ہے اور اس میں بہت گہرا پانی ہے۔ میں جھانکتی ہوں تو مجھے کنویں کی گہرائی میں شکیلہ کے ابوّ دکھائی دیتے ہیں جیسے وہ وہاں تیر رہے ہوں۔۔ پھر مجھے پکارتے ہیں کہ مجھے نکالو۔ میں تیزی سے ڈول ڈالتی ہوں اورتھوڑی دیر بعد ڈول نکالتی ہوں تو دیکھتی ہوں کہ اس میں شکیلہ کا نارنجی دوپٹّہ نکلتا ہے جو میں نے اس کے چوتھی کے جوڑے کے ساتھ بنایا ہے۔ بھیگے ہوۓ دوپٹےّ کو دیکھ کر میں چیخ مارتی ہوں اور میری آنکھ کھل جاتی ہے۔۔۔۔۔۔‘‘
انور نے یہ خواب سن کر پچھواڑے کے کنویں میں جھانکا تھا مگر اسے اس کنویں سے اسے کبھی کوئی دلچسپی پیدا نہیں ہوئی۔ سواۓ اس وقت کے جب ایک بلاّ کنویں میں گر کر مر گیا تھا اور اباّ میاں نے منشی چچااور بڑے بھیاّ سے چالیس ڈول پانی گن کر باہر نکلوا کر پھنکوایا تھا کنویں کو پاک کرنے کے لۓ۔
امیّ اور چچیّ بی کو سوتا دیکھ کر انور آگے بڑھ گیا۔ اباّ میاں کے کمرے میں جھانکا۔ ان کے سینے پر ’زمیں دار‘ اخبار کھلا پڑا تھا اور ان کے خراّنٹوں اور ہوا کے ساتھ اخبار کے ورق پھڑپھڑانی کی آوازوں سے فضا گونج رہی تھی۔ ان کے سر کی طرف بڑا سا پنکھا ساکت تھا۔ اس کی دوری برامدے میں لیٹے ہوۓ غحفور تک چلی گئی تھی جو میلی سی بوری کے بستر پر لیٹا ہوا سو گیا تھا۔ انور نے غفور کو دھیرے سے جھنجھوڑا۔۔
’’پنکھا نہیں چل رہا ہے۔۔۔۔‘‘ اس نے غفور کو اطلاّع دی۔ غفور نے آنکھیں مل کر کھولیں مگر اس سے پہلے ہی وہ مستعدی سے پنکھا ہلانا شروع کر چکا تھا۔ انور کو اطمینان ہو گیا کہ اب پنکھا بند ہو جانے کی گرمے سے اباّ میاں کی آنکھ کھلنے کا بھی خطرہ نہیں ہے۔ امیّ کے کمرے کا پنکھا بوا ہلا رہی تھیں۔ دالان میں ہی کہکشاں مل گئی۔ انور نے غفور کے سو جانے کی بات ہنس کر سنا ئی مگر زیرِ لب۔ اور پھر دونوں خاور اور صبیحہ کے آنگن کی کھڑکی پر دستک دے رہے تھے۔
٭
پانچوں لوُ کے باوجود جیسے ٹہلتے ہوۓ سرکنڈوں کی جھاڑیوں تک گۓ اور کب واپس آ رہے تھے تو ان کے ہاتھوں میں ڈھیروں سر کنڈوں کی گانٹھیں تھیں۔ اور پھر بے حد انہماک سے سر کنڈوں کی مختلف چیزیں بنائی جا رہی تھیں۔
’’دیکھۓ جناب۔ ہم نے نہایت شاندار پستول بنایا ہے۔۔۔‘‘ جنید نے سر کنڈوں کے پستول کو ہاتھوں میں اٹھایا۔۔۔۔’’ہینڈس اپ۔۔۔۔۔!!!! ‘‘
یہ یقیناً جنید نے ان انگریزی فلموں سے سیکھا ہوگا جو اس نے اپنے اباّ کے ساتھ دیکھی ہوں گی۔
’’یہ دیکھو، پورا صوفہ سیٹ تیار ہو گیا۔ ایک میز، دو کرسیاں اور ایک لمبا والا صوفہ۔‘‘ یہ صبیحہ تھی۔
دھوپ میں زردی آتی گئی اور فرنیچر اور گھر ٹوٹتے رہے، بنتے رہے۔ اور سورج سرکنڈوں کی جھاڑیوں کے پیچھے چھپنے لگا۔
٭
وہ اتوار کی چھٹیّ کی صبح تھی جب موسم ہمیشہ خوش گوار لگتا ہے۔ کہکشاں کو شکیلہ باجی اپنے ساتھ کہیں لے گئی تھیں اور انور اکیلا تھا۔ اس نے پائیں باغ کی طرف قدم بڑھا دۓ۔ ہر طرف یکسانیت تھی۔ سارے درخت ویسے ہی سر جھکاۓ کھڑے تھے۔ اس وقت ہوا بند تھی۔ اب دن چڑھے گا تو لوُ چلنی شروع ہو گی، پھر درختوں کے پتےّ بین کرتے زمین پر بکھرنے لگیں گے۔ مگر اس وقت کاموشی اور سکون تھا۔ سارے درخت۔۔ مگر نہیں۔۔ پپیتے کا درخت اپنی جگہ سے غائب تھا۔ اسے یاد آیا۔ کچھ دن پہلے مولوی چچا، اباّ میاں کے دوست لکھنؤ سے آۓ تھے۔ اور اپنے ہاتھوں سے انھوں نے پپیتے کا درخت ہلا ہلا کر اکھاڑ دیا تھا۔ ’’میرے ہوتے ہوۓ جمیل میاں، پپیتے کا یہ منحوس درخت میں نہیں رہنے دوں گا۔ ابھی مجھ میں اتنا دم تو ہے۔‘‘ انھوں نے اپنی چاند ستاروں والی ہری ٹوپی امرود کے درخت کی نکلی ہوئی ننگی شاخ پر لٹکا دی تھی اور دونوں ہاتھوں سے پپیتے کے تنے کو جھنجھوڑنے لگے تھے۔
انور اور کہکشاں مولوی چچا کو پپیتے سے کشتی لڑتے دیکھتے کبھی ان کی چاند ستاروں والی عجیب سی ٹوپی پر شاخوں سے چھنتی دھوپ سے مزید نقش و نگار بنتے ہوۓ دیکھتے رہے۔
باغ سے وہ آنگن میں آیا اور خاور کو بلانے کے لۓ کھڑکی پر دستک دی۔
’’بھائی جان تو پڑھ رہے ہیں‘‘ صبیحہ نے اطلاّع دی۔ تو ابھی تک وہ بڈھاّ ماسٹر بیٹھا ہوا ہے۔۔ انور نے سوچا۔۔ اسکول والے ماسٹر صاحب ہی کافی نہیں ہیں کیا؟؟ ’’تم آ رہی ہو؟‘‘ انور نے پوچھا مگر جواب دۓ بغیر بلکہ سوال مکمل ہونے سے پہلے صبیحہ کھڑکی پھلانگ چکی تھی اور انور کے آنگن میں اتر آئی تھی۔
’’آؤ۔ کاغذ کے ہوائی جہاز بنائیں‘‘۔ انور اباّ میاں کے کمرے سے پرانے اخبار اٹھا لایا تھا۔
پھر ہوائی جہاز بنتے بگڑتے رہے۔ کچھ اڑے، کچھ اڑ نہ پاۓ۔ اس کے بعد کشتیوں کا نمبر آیا، باغ کی نالی میں ایک کے بعد ایک کشتیاں اترتی رہیں، تیرتی ڈوبتی رہیں۔ ’’چلع کشتیوں کی ریس ہو جاۓ‘‘
’’یہ میری کشتی، تصویر کے کاغذ والی‘‘ صبیحہ نے اپنی ناؤ کی پہچان بتائی۔ ’’اور یہ میری‘‘۔ انور کی ناؤ کچھ دور تک بہتی چلی گئی مگر صبیحہ کی کشتی تھوڑی دور ہی تیر کر جھکی اور پانی میں ڈوب گئ۔ صبیحہ کی آنکھوں میں آنسو آُ گۓ۔
’’ارے روتی ہو‘‘۔ انور نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا۔ ’’وہ تصویر والی کشتی میری تھی بھائی ۔ تمھاری کشتی ہی جیت گئی ہے۔ آؤ تم کو اپنی صندوقچی دکھاؤں‘‘ اور انور صبیحہ کو اپنے کمرے میں لے آیا۔ اور کچھ دیر بعد اس نے فرش پر اپنی ساری کائنات ڈھیر کردی۔ نیلی پیلی شیشے کی گولیاں، پلاسٹک کے ننھے ننھے جانور، رنگ برنگ کی تتلیوں کے پر، سنہری بٹن، دو چار خوبسورت سے ڈاک کے ٹکٹ۔ کچھ ہوائی جہازوں کی رنگین تصویریں۔ اور ایک ننھی منی سی ڈائری جو اس نے اباّ میاں سے لی تھی۔
’’یہ سب تم لے لو‘‘۔
’’میں۔۔۔۔۔۔۔؟؟‘‘ صبیحہ نے حیرت سے آنکھیں پھاڑ دیں۔ اس کی آنکھوں کی جھیل خشک ہو چکی تھی۔
’’ہاں ہاں۔ لے لو۔۔۔ سچ مچ!!‘‘ انور نے اس طرح کہا جیسے وہ صبیحہ سے بہت بڑا اور اس کا بزرگ ہو۔
’’میرے پاس دو ہار ہیں۔ ایک تم کو لا دیتی ہوں۔‘‘ صبیحہ بھاگتی ہوئی اپنی کھڑکی کی طرف گئ۔ اور پھر واپس آئی تو اس کے ہاتھوں میں ایک زنجیر تھی جو شیشے کی رنگین چوڑیوں کے ٹکڑوں کو چراغ کے شعلے پر موڑ موڑ کر بنائی گئ تھی۔
٭
پھر آموں کا موسم آیا اور پرانا ہو گیا۔ آم کھا کھا کر انھوں نے گٹھلیاں جمع کیں اور لیموں کے درخت کے نیچے بو دیں۔ کچھ دن بعد ان کے ’پپیۓ‘ اُگ آۓ۔ بڑی احتیاط سے انھیں توڑا گیا۔ انور، کہکشاں، خاور، صبیحہ اور جنید سب نے اپنے اپنے پپیۓ تقسیم اور منتخب کۓ، پھر ان کے گھسے کانے کے عمل کے ساتھ ساون کی بوندیں بھی پانچ آوازوں کے ساتھ کورس میں گا رہی تھیں:
آم کا
جام کا
کھڑی ببول کا
میرا پپیاّ بولے
پٹ پوں
پٹ پوں
پٹ پوں
صبیحہ کو یہ ’وظیفہ‘ یاد نہیں تھا۔ اس لۓ وہ مایوس نظر آ رہی تھی۔ معلوم نہیں اس جادوئی منمتر کے بغیر اس کا پپیاّ بول بھی سکے گا یا نہیں؟ مگر باقی سب زور زور سے چلاّۓ جا رہے تھے۔
’’پٹ پوں
پٹ پوں
پٹ پوں‘‘
اور صبیحہ پپۓ کو مزید گھسنے سے بور ہو کر منہہ کے پاس لا کر اسے بجانے کی کوشش کی تو اس کی ساری مایوسی دور ہو چکی تھی۔ اور بعد میں جب معلوم ہوا کہ اس کے پپیۓ کی آواز ہی سب سے زیادہ ہے تو اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔
٭
*
’’بادل نا مراد آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔ کچھ بوندیں گرتی بھی ہیں تو گرمی کم بخت کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔‘‘ امیّ ہاتھ کی پنکھیا غصےّ سےپھینکتے ہوۓ برامدے سے بڑے کمرے میں چلی آئیں۔چھت پر لٹکے پنکھے کی طرف دیکھا ۔ ’’یہ غفور مرا ہر وقت سوتا رہتا ہے‘‘
برامدے میں بیٹھے بادلوں سے بننے والےہاتھی گھوڑے دیکھتے ہوۓ انور اور کہکشاں نے کمرے میں نظر ڈالی۔ امیّ کس سے بات کر رہی ہیں۔۔ دونوں نے ایک ساتھ سوچا اور کمرے میں کسی کو نہ پا کر خوف زدہ ہوۓ۔ نہ جانے کمرے میں کون ہےجو ان کو نظر نہیں آ رہا!! دونوں خاموش رہے مگر اس خاموشی میں اس عجیب وقوعے کے بارے میں ہزار گفتگوئیں شامل تھیں۔ کبھی کبھی موسم کے بارے میں اظہار خیال کے لۓ کسی مخاطب کی ضرورت پیش نہیں آتی، یہ انھیں پتہ نہیں تھا۔
*
پہلی بوند گری ٹپ!!
’’یا اللہ خوب برسے کہ جھڑی لگ جاۓ‘‘ ۔ چچیّ بی کو دعائیں مانگنے کی عادت سی تھی۔ ان کے کمرے سے ہر وقت یا اللہ سے شروع ہونے والا کوئی نہ کوئی جملہ سنائی دے جاتا تھا۔ شاید اللہ میاں نے اسی وجہ سے ان کی بات سننا چھوڑ دیا تھا۔
کہکشاں اور صبیحہ آنگن میں نکل آۓ اور بارش میں چکرّ لگاتے ہوۓ گا رہے تھے۔ ’’پانی بابا آیا۔ ککڑی بھٹےّ لایا‘‘۔
’’اری کم بختو۔ پہلی بارش میں نہیں نہاتے، بیمار ہو جاؤ گی‘‘۔
دونوں ڈر کر برامدے میں چلی آئیں اور اب خاور اور جنید بھی وہیں آ گۓ تھے اور برامدے کی پر نالیوں میں بار بار اپنے ہاتھ دھو رہے تھے۔ باہر آنگن میں درختوں کی پتیاّں چمک دار سبز ہو گئی تھیں۔ زمین سے سوندھی مٹیّ کی خوشبو اٹھ رہی تھی۔ ان تیز بارش کی جگہ ہلکی پھوار نے لے لی تھی۔ باہر محلےّ کے بچے چیخ رہے تھے
’برسو رام دھڑاکے سے۔
بڑھیا مر گئی فاقے سے‘
*
ایک برستی شام کو جنید نے اطلاّع دی۔
’’معلوم ہے کی سانپ کے مونہہ میں ایک چیز ہوتی ہے۔ بڑی قیمتی۔۔ اسے منکا کہتے ہیں۔ پھر سانپ بارش کی کسی اندھیری رات کوکسی کھڑکی کی طاق میں یا دیوار کے کسی سوراخ میں یا پھر زمین میں ہی اپنے بل میں اسے اگل دیتا ہے۔ کسی کو یہ منکا مل جاتا ہے تو راتوں رات امیر ہو جاتا ہے۔ شاید ڈھونڈھیں تو ہم کو بھی یہ منکا ملِ جاۓ۔‘‘
کچھ دن پہلے ہی غفور کی کوٹھری کے پاس بوا کی پرانی کوٹھری پچھلی برسات میں گر گئی تھی اور اب تک مرمتّ نہ ہونے کی وجہ سے کھنڈر پڑی تھی۔ اسی کوٹھری میں پچھلے دنوں غفور نے سانپ مارا تھا۔ کالا لمبا سا، غفور نے اس کا نام ’ناگ‘ بتایا تھا۔ اور اب اس کوٹھری کا نام سانپ کی کوٹھری پڑ گیا تھا۔
’’سانپ کی کوٹھری میں دیکھیں۔‘‘ انور نے مشورہ دیا۔ ’’شاید وہیں سانپ نے منکا اگلا ہو۔۔‘‘
اور اب سب بنا خوف کے اس کھنڈر میں سانپ کے منکے کی تلاش کر رہے تھے۔ دھوپ ڈھلتی جا رہی تھی اور پھر سورج نے منہہ چھپا لیا۔اندھیرا بڑھ گیا۔
’’دیکھو دیکھو۔۔۔!!‘‘ صبیحہ نے آواز لگائی۔ پچھلی کھڑکی کے نیچے فرش کے ایک سوراخ سے ایک گول سی سرخ شے جھانک رہی تھی۔ ’’ہو نہ ہو، یہی منکا ہے۔ سانپ نے یہیں آ کر اگلا ہوگا‘
پھر دفعتاً سب کو اندھیرے اور سانپ کا ڈر لگا۔ وہ سب تیزی سے باہرآۓ، اور پھر صبح اس سرخ شے کو دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ غفور چلاتا رہا...’’ہم ابہن بڑی ماں سے کہت ہیں کہ بھینّ اور بٹیا لوگ سانپ والی کٹھریا میں گھسے رہے۔ ڈر ناہیں لگت کیا؟؟‘‘
انور سوچنے لگا، صبح سب لوگ اس چیز کو دیکھیں گے، اگر یہ واقعی منکا ہوا تو۔۔۔!! اسے نکال کر اس کا کیا کریں گے؟؟ شاید اس پر جنید قبضہ جمانا چاہے کہ اس نے ہی منکے کی بات بتائی تھی۔ یا شاید صبیحہ رونے لگے۔ خیر صبیحہ رونے لگی تو وہ ضرور اس کی اجازت دے دے گا کہ منکا صبیحہ کو دے دیں۔ اسے مل جاۓ تو کوئی بات نہیں۔ مگر۔۔۔مگر۔۔۔’’سب سے پہلے میں ہی دیکھوں گا منکا کل صبح۔۔۔‘‘
اپنی اپنی جگہ شاید یہی سب ہی سوچ رہے تھے۔
*
مرغ کی پہلی بانگ کے ساتھ ہی انور اٹھ بیٹھا۔ دبے قدموں سے سانپ ًکی کوٹھری کی طرف گیا۔ ابھی روشنی نہیں پھیلی تھی۔ انور کھنڈر کے پاس ہی روشنی ہونے کے انتظار میں کھڑا رہا۔ تھوڑی دیر بعد وہ ہمت کر کے اندر گھسا۔ روشنی بڑھتی رہی مگر وہ سرخ سرخ سی پر اسرارشے اب تک اپنی ماہیت کو واضح نہیں کر سکی تھی۔ وہ ایک ٹک اسے دیکھتا رہا۔ تبھی خاور اور صبیحہ بھی اس کے پاس چلے آۓ، اور پھر کہکشاں بھی، مگر جنیدشاید ابھی سو رہا تھا۔
پھر دن پوری طرح نکل آیا۔سانپ والی کوٹھری کی کچی زمین کے سوراخ میں وہ شے واضح ہونے لگی۔ انور نے اس شے کو نکال لیا۔ پھر وہ چپ چاپ جنید کو خبر کرنے چلے گۓ۔ بے حد مایوس۔
یہ کسی فراک کا سرخ بٹن تھا۔
**
آنکھوں سے کہو کچھ مانگیں
خوابوں کے سوا جو چاہیں
شہریار
قرۃ العین حیدر کی نذر
’’پی چو۔ ہمارے سارے آیڈیلس!‘‘ رخشندہ نے آہستہ سے کہا۔ پھر اسے ہی محسوس ہوا کہ اس نے کتنی بیکار بے معنی لغو بات کہی ہے۔‘‘
(میرے بھی صنم خانے۔ ص۔ 2(20
حصہ اول:
ستارے اور دھند
ہم نے موتی سمجھ کے چوم لیا
سنگ ریزہ جہاں پڑا دیکھا
(ناصر کاظمی)
کمرے کی جھلملیوں سے صبح کے نور کی پہلی کرن شرماتی لجاتی اندر داخل ہو ئی۔ سامنے دیوار پر کلاک ایک سے بارہ اور پھر بارہ سے ایک تک مسلسل سفر کر رہا تھا۔ ٹکِ ۔ٹک۔ِٹکِِ ۔ٹک
عمران صاحب کی آنکھ کھلتے ہی نظر سامنے رکھی تصویر پر پڑی۔ ابھی جیسے کل کی ہی بات ہے کہ شاہینہ نے کہا تھا کہ اس سال فرحان کو اسکول میں داخل کرنا ہے۔ اور اب یہ فرحان صدّیقی آ ئی۔اے۔ایس۔ اضلاع کے دوروں پر گھومتا رہتا ہے۔ ابھی روحی آۓ گی، صبح کی چاۓ ہمیشہ وہی اپنے ہاتھ سے لا کر دیتی ہے اور کچھ فرحان کی خبر سناۓ گی کہ پچھلی رات فرحان نے اس سے فون پر کیا کہا۔ شاید۔ انھوں نے تھکے تھکے سے انداز سے آرام کرسی پر بیٹھتے ہوۓ سوچا۔ شاید وتت نہیں بیتتا، ہم بیت جاتے ہیں۔ ٹک۔ ٹک۔ ٹک۔ ٹک۔ کلاک مسلسل چیخ رہا تھا۔
باہر باغ میں اشوک کے درختوں پر لا تعداد پرندے اپنی ایک ساں آواز میں چلاّۓ جا رہے تھے۔ انھوں نے اٹھ کر کھڑکی کھول دی ۔سڑک کے پار سامنے کے بنگلے کے باورچی خانے میں چولھا سلگا دیا گیا تھا اور دھواں اٹھ رہا تھا۔ ماحول میں کتنی شدید یکسانیت ہے۔ انھوں نے پھر سوچا اور پھر اپنی آرام کرسی پر واپس ہوۓ۔ عمران صاحب کو اس وقت یہ خیال نہیں تھا کہ ابھی قہقہوں اور مسکراہٹوں کے غباّرے فضا میں اڑنے لگیں تو۔۔۔۔!
٭
’کشی‘
کہکشاں نے چپ چاپ کروٹ بدلی۔
’اے کشی۔۔۔۔کہکشاں!‘
کہکشاں لحاف سے منہ نکالے بغیر کچھ کہنا ہی چاہ رہی تھی کہ ایک لمبی ’شی۔۔۔۔۔‘ کی آواز آ ئی.۔
انور اپنے بستر سے اٹھ کر لہکشاں کی طرف آیا۔ ۔’کشی۔ وہی اپنی کو ئل۔۔۔۔۔۔۔!‘
کہکشاں جھٹ پٹ اپنے بستر سے اچھلی۔ اور ماحول کی یخ زدگی سے بے خبے بغیر گرم کپڑوں کے دونوں پیچھے باغ میں نکل آۓ۔
’کل بھی ایسی ہی آواز تھی نا!۔۔۔ کیوں ہے نا کشی؟‘
’ہاں ۔یہ وہی اپنی کو ئل کی آواز لگ رہی ہے‘
کو ئل اب بھی اسی طرح پکارے جا رہی تھی۔’ کو۔۔۔۔۔۔۔ کو۔۔۔۔۔۔۔ کو۔ کو۔ کو۔ کو ۔کو‘
’نانی جان کہہ رہی تھیں کہ یہ اللہ میاں کو پکارتی ہے۔ تو۔۔۔تو۔۔۔ ہیں انو ّ بھیا ّ؟‘ کہکشاں نے ’تو۔۔‘ کویل کی آواز کی نقل کرتے ہوۓ کہا۔ انورنے کوئی جواب نہیں دیا۔ کہ اسے یک لخت یاد آ گیا تھا کہ اسے بھی تو کوئل کی پکار کا جواب دینا ہے۔
’ کو۔۔۔۔۔۔۔ کو۔۔۔۔۔۔۔ کو۔ کو۔ کو۔ کو ۔کو‘ کوئل چلاّئی۔
’ کو۔۔۔۔۔۔۔ کو۔۔۔۔۔۔۔ کو۔ کو۔ کو۔ کو ۔کو‘ انور کے ساتھ کہکشاں نے بھی جواب دیا۔
’یہی ہماری کوئل ہے جو روز اس پیپل کے پیڑ پر آ کر بولتی ہے۔ شاید یہاں ہی کہیں رہتی ہو‘ کہکشاں بولی۔ ٹھنڈی ہوا سے اس کی آنکھیں مچمچانے لگیں تھیں۔
’کشی! اس کوئل کا کچھ نام دیا جاۓ۔ اب یہ ہماری تو ہو ہی گئی ہے۔ جیسے ہمارا کتاٌ نہیں ہے سولجر‘
’ہاں ہاں۔ سوچو کوئی اچھا سا نام۔‘
دونوں سوچنے لگے۔
’کالو‘ کشی نے مشورہ دیا۔ ’کوئل کالی ہوتی ہے نا۔۔!‘
مگر انور کے ذہن میں جمعدارنی کا لڑکا کالو گھوم گیا۔ ’ اونہہ۔ کالو بھی کوئی نام ہے بھلا! اور پھر کالو تو لڑکوں کے نام ہوتے ہیں۔ پھر کیا پتہ یہ کوئل نر ہے یا مادہ‘
کوئل پھرسےپیپل کی شاخ سے اڑ کر پورب کی طرف چلی گئی۔ آموں کے درختوں کی طرف۔
’تو کیا کوئل نر بھی ہوسکتی ہے یا ہو سکتا ہے‘ ۔کہکشاں گڑبڑا گئی۔ اسے کوئل کے نر ہونے کے امکان پر سخت تعجبّ ہوا تھا۔
’اے انور کہکشاں! وہاں باغ میں پہنچ گۓ ہو۔ سوئیٹر کوٹ تو پہن لیتے! او چچیّ جان! دیکھۓذرا انوّ اور کشی کو۔ باغ میں بغیر گرم کپڑوں کے گھوم رہے ہیں۔ سردی لگ جاۓ گی۔‘ شکیلہ باجی برامدے سے چلاّ رہی تھیں۔ مگر انوّ اور کہکشاں بھاگ کر اپنے کمرے میں پہنچ چکے تھے اور جلدی جلدی سوئیٹر پہن کر خود کو بے حد محفوظ محسوس کر رہے تھے۔ ویسے ان کو یہ بھی یقین تھا کہ امیّ پر شکیلہ باجی کی بات کا کچھ خاص اثر نہ ہوگا۔ اور اس وقت تو امیّ کسی کام سے غفور کو پکار رہی تھیں جو شاید اب تک بوا کی کوٹھری میں سو رہا تھا۔
ِِِ٭
’’بڑے بھیاّ!‘‘
انور نے ناشتے کی میز پر دودھ کا پہلا گھونٹ لیتے ہوۓ کہا۔
’ہوں۔۔‘ بڑے بھیاّ نے آتے ہی اپنی چاۓ بنائی اور اب چینی گھول رہے تھے۔
’یہ حلوہ پراٹھا لیجۓ نا! مزے کا ہے!!‘
’ہاں ہاں، تم تو لو۔۔۔۔۔۔‘ وہ بے حد محویت سے چاۓ میں اس طرح شکر ہلا رہے تھے جیسے دنیا کا اہم ترین کام یہی ہو۔
’’بڑے بھیاّ! تھوڑا سا تو لیجئے نا‘‘ ۔ کہکشاں کوبڑے بھیاّ پر بیت ترس آ رہا تھا۔ بے چارے ناشتے میں محض چاۓ پۓ جا رہے تھے۔ اور اب پھر جو نکلیں گے تو رات تک کھانے کا کچھ ہوش تک نہ ہوگا۔
’’تم دونوں کو آج یکایک مجھ سے اتنی ہمدردی کیوں ہو گئی ہے۔‘‘ انھوں نے ہونٹوں پر ایک غمگین سی مسکراہٹ پھیلا دی۔ اور ایک پلیٹ اتھا کر تھوڑا سا حلوہ نکال کر سامنے رکھ لیا۔
’’بڑے بھیاّ! ہماری کوئل کا اچھا سا نام رکھ دیجئے کوئی‘‘ انور نے شرما کر کہا۔
’’لو بھلا اب کوئلوں کے نام رکھے جانے لگے‘‘ بڑے بھیاّ ہنس دیۓ۔
’کیا ہوا بھئی‘ ۔ امیّ بھی کمرے میں آ کر ناشتے کی میز پر بیٹھ گئیں۔
’ یہ انوّ اور کشی اپنی کوئل کا نام رکھنا چاہ رہے ہیں۔ مطلب یہ کہ کسی کوئل کو اپنا بنا لیا ہے‘ بڑے بھیاّ ایسے شرمندہ تھے جیسے یہ حماقت ان سے ہی سر زد ہو رہی ہو۔ اور امیّ کہہ رہی تھیں۔ ’کوئی کوئل کا بھی نام رکھتا ہے جیسے کوئی پالتو جانور ہو۔ ‘ٹھیک ہے بھائی۔ اس گھر کی توریت ہی نرالی ہے۔ کہ آنکھ کے اندھے اور نام نین سکھ۔ جسے عقل چھو کر نہ گزرے اس کا نام ایسا جیسے بہت عقل مند ہو۔ کالے کوےّ کی سی صورت کا نام ایسا جیسے کسی بے حد حسین کا نام ہو ۔۔۔۔۔ تو پھر اس گھر میں بھلا کوئلوں کے نام کیوں نہ رکھے جائیں گے‘
’امیّ آخر آپ کو عقیل چچا۔۔۔۔۔۔‘ بڑے بھیا نے کہنا چاہا تھا۔
’بس ۔ چپ رہو۔۔۔۔۔ اور شکیلہ تم سے کس نے کہا کہ یہاں چلی آؤ۔ تم کو تو اپنی ماں کو ناشتہ کرانے کا کہا تھا نا!‘
شکیلہ باجی دروازے سے ہی واپس چلی گئیں۔ نہ جانے کیوں وہ ہمیشہ اسی وقت ناشتے کے لۓ آتی تھیں جب بڑے بھیاّ ناشتہ کر رہے ہوتے۔ اور بڑے بھیاّ کے ناشتے کی نگرانی کرنے کے لۓ ہمیشہ امیّ چلی آتیں۔ مگر ان کی اس نگرانی میں کوئی زیادہ وقت نہیں لگتا تھا۔ بڑے بھیاّ اٹھ بھی چکے تھے اور جب غفور نے برتن سمیٹے تو ان کی پلیٹ میں اب تک اتنا ہی حلوہ رکھا ہوا تھا۔
انور اور کہکشاں ناشتہ کر کے بڑے بھیاّ کے کمرے میں پھرچلے گۓ ۔۔۔۔۔
’ بڑے بھیاّ! آپ نے بتایا نہیں؟‘
’کیا۔۔۔۔۔؟‘
’وہی ہماری کوئل کا نام!‘
’نام میں کیا رکھا ہے۔ کچھ بھی رکھ دو۔ اے۔ بی۔ سی۔ ڈی‘
انوّ اور کشی کی آنکھیں مرجھا گئیں۔
’اچھاّ دیکھو۔ کوئل کو ہندی میں کہتے ہیں کو کیلا۔ بس یہی نام رکھ دو۔۔‘
’یہ تو بہت لمبا نام ہے بڑے بھیاّ۔‘ مگر انوّ کو نام پسند آ گیا تھا۔
’تو پیار سے کو کی کہہ دیا کرو۔۔۔۔‘
’واہ واہ، کوکی کو کی!!!۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘
انو اور کشی خوش خوش بھاگ گۓ۔
’اے کشی۔ میری بہن۔ اپنے بڑے بھیاّ کو یہ دے آؤ‘ شکیلہ نے کہکشاں کا راستہ روکا۔
گاجر کے حلوے کی پلیٹ تھامتے ہوۓ کہکشاں بولی. ’ جیسے آپ کے تو بڑے بھیاّ ہوتے ہی نہیں۔۔۔۔ ‘
’اور تمھارے لۓ یہ ٹافی۔۔۔۔‘
شکیلہ باجی نے جواب دۓ بغیر لال ریپر میں لپٹی ٹافی اس کی آنکھوں کے سامنے کر دی۔ کہکشاں نے روٹھنے کا سا بہانہ کرتے ہوۓۂ مونہہ موڑ لیا۔ لیکن پھر جانے کیا ہوا کہ کچھ لمحے بعد ہی ٹافی کا ذائقہ اس کے منہہ میں گھل رہا تھا اور شکیلہ باجی کے ہاتھ میں ٹافی کا خالی ریپر چرمرا رہاتھا۔
٭
’دیکھو انوّ بھیا۔۔ یہ کیا؟‘
یہ ٹافی کے کاغذ کی جھلملاتی گڑیا تھی۔
’یہ تو دلہن لگ رہی ہے۔ جیسے منشی جی کی لڑکی نہیں لگ رہی تھی اپنی شادی کے دن۔۔۔۔‘
پھر یہ گڑیا کمرے کی شمالی دیوار میں لگی الماری میں اوپر کے خانے میں سجا کر رکھ دی گئی۔ اس میں تین خانے تھے۔ سب سے نیچے والا کہکشاں کا تھا، درمیان والا انور کا جس میں وہ اپنا ذاتی سرمایہ رکھتا تھا۔ اور سب سے اوپر والے خانے میں دونوں کا مشترکہ سامان رہتا تھا۔ یہ گڑیا دونوں کا مشترکہ خزانہ تھی۔
٭
’کیا کر رہے ہو خاور؟‘
’پہاڑے‘
’کتنے کا؟‘
’تیرہ کا۔۔۔۔ ‘
’ارے اس میں کیا رکھا ہے‘ انور نے شیخی بگھارنی شروع کی۔ ’مجھے تو بیس تک پہاڑے یاد ہیں بیس تک۔۔۔۔ اور آدھا، پواّ، پونا، سوایا سب کچھ۔۔۔۔ ‘
آج کل انور اور کہکشاں کی چھٹیاّں تھیں مگر خاور اب تک اسکول میں داخل نہیں کیا گیا تھا۔ اسے ماسٹر صاحب آ کر گھر پر پڑھاتے تھے۔
’ایسا کرو۔ تم ماسٹر ساحب کو بنۓ کا پہاڑہ سنا دو۔‘ انور نے بے حد سنجیدگی سے مشورہ دیا۔ پھر خود ہی رٹے ہوۓ سبق کی طرح دہرانا شروع کر دیا۔۔۔۔
’بنیا ایکم بنیا
بنیا دونی دال
بنیا تیا تیل
بنیا چوکے چاول
بنیا پنجے پان
؎بنیا چھکےّ چھالیہ
بنیا ستےّ ستوّ
بنیا اٹھےّ آٹا
بنیا نواں نون
بنیا دھام دھنیا‘
’مجھے اڑھائی کا پہاڑہ بھی یاد ہو گیا۔ سناؤں؟‘ اور خاور شروع ہو گیا۔’اڑھائی ایکم اڑھائی۔۔ اڑھائی دونی پانچ ۔۔اڑھائی۔۔۔۔۔۔‘
مگر انور بور ہو گیا۔ ’ختم کرو اسے۔ سنو۔ آج ہم نے کوئل کا نام رکھا ہے۔۔۔۔کوکی۔۔۔۔‘
’کوکی۔ یہ کیا نام ہے؟‘
’بڑے نبھیاّ نے نام تو رکھا تھا کوکیلا۔ جیسے شکیلہ‘
مشال کے لۓ شکیلہ باجی کا نام سامنے ہی تھا۔
’مگر ہم پیار سے اسے کوکی کہیں گے۔۔۔۔۔ ہماری پالتو کوئل ہے نا!‘
’تب تو مزے کی بات ہے۔ ہماری بلیّ کا نام ہے مکیِّ۔۔۔۔۔مکیّ مکیّ!!۔ چہ چہ چہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘
اور میاؤں میاؤں کرتی صندلی بلیّ خاور کے پیر سے لپٹنے لگی۔
’مگر ماسٹر صاحب کہہ رہے تھے کہ مکیّ تو کسی چوہیا کا نام ہوتا ہے‘
خاور کو اپنی بلیّ کے نام پر شک ہوا‘
’تو کیا ہوا۔ امیّ کہتی ہیں نا کہ آنکھ کے اندھے نام نین سکھ‘ انور نے تسلی دی۔
کہکشاں نے موضوع بدلا۔۔۔۔۔’چلو ۔۔۔۔۔باہر چلیں۔ انجیر توڑیں گے۔۔۔۔۔‘
تینوں پھاٹک سے نکل کر انجیروں کے پیڑوں کی طرف جانے والی باغ کی پگڈنڈی پر چلے جا رہے تھے اور خاور گا رہا تھا۔۔
’چل چل چمن کے باغ میں میوہ کھلاؤں گا۔۔۔۔۔‘
’اور امیّ انور کو آوازیں دے رہی تھیں۔۔۔۔۔’ انوّ بیٹا۔ یہ چونیّ لے جاؤ اور بنۓ کے پاس سے چرونجی تو لے آؤ۔ یہ غفورا نہ جانے کہاں مر گیا۔۔۔۔۔‘
٭
ڈگڈگی کی آواز سے انور اور خاور دونوں چونکے۔ ڈگڈگی مسلسل بج رہی تھی۔ مجمع جمع ہونے لگا تھا۔ یہ ایک بھالو والا تھا اور بھالو کے تماشے کے لۓ ان دونوں کا نہ رکنا ایک اہم ترین فریضے سے آنکھیں بند کر لینا تھا۔ بھالو اپنے مالک کے اشارے پر نت نۓ کرتب دکھا رہا تھا۔
’اے کالۓ۔ یہ سب تماشہ کس واسطے؟‘
اور بھالو اپنا پیٹ دکھاتے ہوے سب کے سامنے لیٹ گیا اور پیٹ پر ہاتھ پھیرنے لگا۔
پھر بھالو والا سب سے پیسے مانگنے لگا۔انور نے جیب میں چونیّ محسوس کی۔ پھر جلدی سے خاور کو کھینچا۔ اسے چرونجی یاد آ گئی تھی۔
دونوں بنۓ لی دوکان کی طرف چلنے لگے۔ بس یہ آخری گلی ہی تھی دو گھروں کے درمیان اور اس کے بعد موڑ پر ہی بنۓ کی دوکان۔ مگر اس چھوٹی ی گلی کی وجہ سے ہی انور اکیلا نہیں آیا تھا۔ اس گلی میں ایک ننھی سی طاق تھی اور اس طاق میں ایک ننھی منی سی قبر۔ اس پر سبز رنگ کیا ہوا تھا اور ایک تازہ گلاب کا پھول رکھا تھا۔ دیوار کے ایک سوراخ میں اگربتیاں سلگ رہی تھیں۔ یہ سیدّ صاحب کا مزار تھا۔
’نہ جانے کون پھول اور اگربتیاّں رکھ جاتا ہے یہاں۔ انور! تم نے کبھی سیدّ صاحب کو سلام کیا ہے؟ ‘
’نہیں تو ڈر لگتا ہے۔۔‘
’کہتے ہیں کہ قبروں پر سلام کرنا چاہۓ۔ اسلاّم و علیکم یا اہلِ قبر!‘
’مگر خاور۔ سمجھ میں نہیں آتا کی سیدّ صاحب کی اتنی چھوٹی سی قبر کیوں ہے؟‘ انور کے ذہن میں عقیل چچا کی لمبی چوڑی قبر کی یاد ابھی تازہ تھی۔
’ابا کہتے تھے کہ یہاں پہلے بڑا مزار تھا اور بڑی قبر تھی۔ مگر جس کی زمین تھی، اس نے وہیں مکان بنایا اور بڑامزار توڑ کر اس کی جگہ یہ چھوٹی سی طاق بنا دی۔ ۔۔‘
انور کے لۓ یہ نئ اطلاّع تھی۔ انور کے دماغ کے خزانے میں نہ جانےکتنے اسرار پنہاں تھے۔
’اور میرے اباّ تو ہمیشہ اس قبر کو سلام کرتے ہیں۔۔۔‘
اس نے مزید اطلاّع دی۔
انوّ کی آنکھیں حیرت سے پھٹی رہ گئیں۔ ابھی پچھلے دنوں بنۓ کی دوکان پر سائیکل کی دوکان والے شبراتی نے بتایا تھا کہ اس نے اس مزارپر سلام کیا تو ایک ’رباب‘ والی آواز نے جواب دیا ’وعلیکم اسلام‘ اور شبراتی ڈر کر بھاگ گیا تھا۔
بنۓ کی دوکان سے چرونجی لینے کے بعد موڑ مڑتے ہی پھر سیدّ صاحب زیرِبحث آ گۓ تھے۔اس مزار کو دیکھتے ہی ان کی یہ باتیں لازمی تھیں۔
’مجھ کو تو یہ لگتا ہے کہ سیدّ صاحب تھے ہی ذرا سے آدمی ۔۔۔‘ انورنے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔ اور خاور بھی اس نئ تھیوری پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بعد بولا۔ ’امیّ کہتی ہیں کہ کبوتر بھی سیدّ ہوتے ہیں۔شاید یہ سیدّ صاحب بھی کبوتر ہوں۔‘ انور نے سامنےکی مسجد کے میناروں پر اڑتے بیٹھےکبوتروں پر کچھ خوف سےنظر ڈالی۔ اس موضوع نے نیا رخ اختیار کر لیا تھا۔ آخر انور چپ نہ رہ سکا۔’ چپ رہو اب۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے‘۔ پھر باقی راستہ خاموشی سے ہی طے ہوا تھا۔
٭
بڑے بھیاّ!‘ انور نے بڑےبھیاّ کے گلے میں باہیں ڈال دیں اور کہکشاں نے ان کے ہاتھ سے کتاب چھین لی۔
’کوئی کہانی‘ انوّنےجلدی سے اپنی فرمائش اگل ہی دی۔
بڑےبھیاّ نے عینک اتار کر رکھ ہی دی۔ ’کون سی کہانی بھائی!‘
کوئی سی بھی۔ مگر بھوتوں والی نہیں۔۔۔‘ انور ابھی بھی سیدّ صاحب کے مزار والی گلی میں گھوم رہا تھا۔
پہلے یہ بتائیے آپ نے کبھی سیدّ صاحب کوسلام کیا ہے وہی طاق والے۔۔۔۔؟‘
’ارے وہ بنۓ کی دوکان کے پاس جن کا گلی میں مزار ہے۔‘ بڑے بھیاّ ہنس دئیے۔ ’کیا آج انھوں نے تمھارے سلام کا بھی جواب دے دیا۔۔۔؟‘
انور ے کچھ جواب نہیں دیا‘
’بھئ یہ بھوت پریت کچھ نہیں ہوتے۔۔۔۔سب لوگوں نے ایسے ہی جھوٹے قصےّ بنا لئے ہیں.‘
’سچیّ بڑے بھیاّ!‘ کہکشاں بولی۔ .مگر پریاں تو ہوتی ہیں۔ اچھےّ بچےّ جب رات کو سوتے ہیں تو پریاں ان کے تکۓ کے نیچے ٹافیاں اور چاکلیٹ رکھ جاتی ہیں۔ اور اس دن شکیلہ باجی کہہ رہی تھیں کہ کوئ پھول توڑے تو ایک پری مر جاتی ہے۔ کہا وہ پھول نہیں ہوتا، پری ہوتی ہے؟ ہیں بڑے بھیاّ؟‘
’تمھاری شکیلہ باجی نے کہا ہے تو پھر ٹھیک ہی کہا ہوگا۔ مگر بھائی انگریزی کہانیوں والی پریاں تو مش رومس میں رہتی ہیں۔ وہی جو ہوتی ہے نا کتےّٗ کی چھتری۔۔ اس میں۔ اچھاّ وہ کہانی سنائیں تمھیں جس میں ایک شہزادی کے سر میں کیل ٹھونک کر مینڈکی بنا دیا گیا تھا جادو سے۔‘
’ہاں ہاں بڑے بھیا١۔ وہی۔ کہکشاں خوش ہو کر پریوں کی بات بھول ہی گئ۔
بڑے بھیاّ کی کہانیوں میں سات شہزادے ہوتے تھے یا سات شہزادیاں۔ ساتویں شہزادے کا تیر کسی تالاب میں مینڈکی کے پاس چلا جاتا تھا جس سے اسے شادی کرنی ہوتی تھی۔یہ دوسی بات ہے کہ بعد میں پتہ چلتا تھا کہ وہ بھی شہزادی ہی تھی جسے جادو سے مینڈکی بنا دیا گیا تھا۔ یا پھرکوئی ساتویں شہزادی /شہزادہ اپنی قسمت کا کھانے کی وجہ سے معتوب ہو جاتی تھی/ہو جاتا تھا۔یہ سارے معزول شہزادے اور مظلوم شہزادیاں اپنےاٗجاڑ محلوں میں اپنی قسمت کا ماتم کرنے کے لۓ رہ جاتے تھے۔ انھیں ان ماتم گاہوں کے حصار کے باہر کا کچھ پتہ نہ تھا جہاں روشنیاں تھیں، رنگ تھے، سرٗ تھے۔
’تو پھر بادشاہ نے کہا کہ جس شہزادے کا تیر جس طرف جاۓ گا وہیں اس کی شادی کر دی جاۓ گی۔ پہلے شہزادے کا تیر شمال کی طرف گیا، اور وہاں ………‘
انور سوچ رہا تھا کہ دنیا بھر کی دادی اماّئیں اور نانی اماّئیں ایسی ہی کہانیاں سناتی ہیں۔ ہماری نانی دادی نہیں مگر بڑے بھیاّ نے ضرور اپنی نانی دادی سے ہی یہ سب کہانیاں سن رکھی ہوں گی۔
’دوسرے شہزادے کا تیر گیا جنوب کی طرف۔ تم جانتی ہو کشی شمال جنوب۔ جسے انگریزی میں نارتھ ساؤتھ کہتے ہیں۔‘ بڑے بھیاّ شمال جنوب سمجھانے لگے جیسا کہ ان کی عادت تھی۔ مگر انور کے ذہن میں گرمیوں کی ایک دوپہری چکرّ لگا رہی تھی۔
٭
چچیّ بی اور امیّ نے آنگن میں کچیّ کچیّ مگر بڑی بڑی امبیوں کا ڈھیر لگا رکھا تھا۔ چچیّ بی مزے سے بڑے سے سروطے سے کھٹا کھٹ ان کے دو دو حصےّ کۓ جا رہی تھیں۔ انور اور کہکشاں ان کی ’بجلیاں‘ نکال رہے تھے اور جمع کرتے جا رہے تھے۔
’بجلی بجلی میرا بیاہ کدھر؟‘
انور نے امبیا کی بجلی کو پنجے میں پکڑ کر پھسلایا اور بجلی اچک کر آنگن کے پار کھڑکی سے ٹکرائی۔ اور اسی لمحے کھڑکی کھلی۔۔
’انو بھیاّ۔ کشی کہاں ہے؟‘۔ یہ صبیحہ تھی۔
٭
سنو خاور۔ رات مجھ کو بڑا ڈر لگا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے مجھے سیدّ صاحب سلام کا جواب دے رہے ہیں۔وعلیکم اسلّام‘
’وہ ضرور جمعراتی ہوگا۔ ہمیشہ اسلام و علیکم کی جگہ وعلیکم اسلام کہتا ہےبے وقوف۔ ارے وہی جمعراتی جس نے اس دن کوتوالی کے پیچھے سر کٹا دیکھا تھا۔۔۔۔‘
’سر کٹا۔۔۔۔؟‘
’ہاں جناب۔ جمعراتی بتا رہا تھا کہ اس نے کیا دیکھا کہ کوتوالی کے پیچھے جو پیپل کا پیڑ ہے، اس سے کود کر سر کٹااترا اور جمعراتی سے پوچھنے لگا ۔۔۔’تو نے دیکھا ہے اس راستے میں کہیں میرا سر تو نہیں پڑا؟‘
’تو کیاوہ آدمی تھا جس کا سر نہیں تھا؟‘
’اور کیا ۔ ایسا ہی ہوگا، گردن تک آدمی، سر کٹا ہوا۔ اور جب وہ وہاں سے ڈر کربھاگا ہےتو پتنگوں والے چوراہے پر اسے سڑک پر کٹا ہوا سر بھی پڑا ملا۔ اور جناب ! اس نے تو پِچھل پیریاں بھی دیکھی ہیں!!!‘
’یعنی چڑیلیں۔ہیں خاور!!‘
’ ہاں وہ ٹرک چلاتا ہے نا۔ ایک رات وہ کسی سنسان سڑک سے گزر رہا تھا کہ اس نے جنگل میں روشنی دیکھی۔ اسے بھوک لگ رہی تھی۔ اس نے سوچا کہ کوئی گاؤں ہوگا۔ وہاں شاید اسے چاۓ مَل جاۓ۔ مگر جب روشنی کے قریب گیا تو وہاں کچھ عورتیں ناچ رہی تھیں، اور ان کے پیر الٹے تھے---- ایڑی سامنے اور پنجے پیچھے۔‘
’جیسے ہماری اردو کی کتان میں ایک ڈاکٹر صاحب نے گڑیا کے پیر الٹے سی دیۓ تھے‘
’ہاں ہاں ایسی ہی ہوتی ہیں پچھل پیریاں۔ اور انہیں کو چڑیل بھی کہتے ہیں۔خود ہمارے ابّا نے چڑیلوں کے پیروں کی پائل کی آواز سنی ہے۔‘
’بس کرو خاور۔۔۔۔۔ کیا مار بھوتوں چڑیلوں کی باتیں کۓجا رہے ہو۔ میرا تو ڈر کے مارے دم نکلا جا رہا ہے۔‘
’کیا ہو گیا انوّ بھیاّ ۔۔۔۔! صبیحہ جو ابھی آئی تھی، انور کے جملے کا آخری حصہّ سن کر پریشان سی ہو اٹھی۔
’بھوت چڑیلوں کی باتیں ہو رہی ہیں۔چیاؤں۔۔۔۔۔!‘
اور ونور نے صبیحہ کو ڈرانے کی کوشش کی حالاں کہ خود اس کا دلاب تک کانپ رہا تھا۔
٭
’سات سمندر گوبھی چندر، بول میری مثھلی کتنا پانی۔۔۔۔؟‘
.اتنا پانی۔۔۔‘
صبیحہ اور کہکشاں نے محلےّ کی کئی بچیوّں کو اکٹھاّ کر رکھا تھا اور کھیل زوروں میں جاری تھا کہ امیّ نے آواز لگائی۔۔۔
’دونوں وقت ملِ رہے ہیں۔ اب بند بھی کرو‘ اور مچھلی نہ جانے کتنے پانی میں آ کر رک گئی۔ سورج ڈوب رہا تھا۔ خاور اور انور دور کھڑے آسمان پر اڑتے بگولوں کی قطار دیکھ رہے تھے۔
’اللہ دے رسول بخش۔ بگلے بگلے پھول بخش ‘
ان کی آنکھیں بند تھیں اور ہونٹ مستقل گردان کیے جا رہے تھے۔ پھر انور نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں اور ’شگون‘ کے لیے پہلے بگلوں کی طرف دیکھا جو مشرق کی طرف جنگلوں میں دھیرے دھیرے گم ہوتے جا رہے تھے اور پھر اپنےہاتھوں کی انگلیوں کے سارے ناخنوں میں کچھ تلاش کیا۔
’دیکھو دیکھو ‘ خاور نے بائیں ہاتھ کی بیچ کی انگلی نچائی جس کے ناخن پر خشخاش کے دانے کے برابر داغ پڑ گیا تھا۔ انور کا دل بجھ سا گیا۔ بگلوں نے اسے کوئی پھول نہیں بخشا تھا۔ اس کے ہاتھ کی کسی انگلی کے ناخن میں کوئی داغ نہیں تھا۔وہ دھیرے دھیرے نپے تلے قدموں سے برامدے کی طرف آیا اور وہاں پڑی چار پائی پر بیٹھ کر اپنے ناخن پھر سے غور سے دیکھنے لگا۔
’ہماری بیچ کی انگلی پکڑو۔۔ ‘ خاور نے دائیں ہاتھ کی انگلیاں توڑ مروڑکر بائیں ہاتھ کے پیالے میں پیش کر دیں۔ انور سوچ میں پڑ گیا۔ بایاں ہاتھ ہوتا تو بگلے کے بخشے پھول سے بیچ کی انگلی پہچان بھی لیتا۔
’شاید یہ ہے۔ نہیں۔ یہ تو انگوٹھا ہے۔ یہ چھوٹی انگلی ہے جس میں کل میرے سامنے گلاب کے پھول توڑتے ہوۓ تمھارے کانٹا چبھ گیا تھا۔ ہاں۔ یہ رہی۔۔۔‘
اور اب انور مسکرا رہا تھا۔ اس نے صحیح انگلی پکڑی تھی۔ اب اس نے بھی فوراً اپنی بیچ کی ازنگلی پکڑوانے کے لۓخاور کے سامنے دوسرے ہاتھ میں انگلیاں اس طرح چھپا کر پیش کر دیں کہ ان کے صرف سرِے نظر آ رہے تھے۔
’یہ ہے۔۔۔ ہیں۔۔۔۔؟‘
مگر خاور کی آنکھوں کی چمک معدوم ہو چکی تھی۔ یہ انور کی چھوٹی انگلی کے پاس والی انگلی تھی، بیچ کی نہیں۔
٭
شکیلہ باجی اپنی سہیلیوں کے ساتھ تاش کھیل رہی تھیں۔غلام بادشاہ کا کھیل عروج پر تھا کہ شکیلہ باجی غلام بن گئیں۔
’ہم توبھئی بادشاہ ہیں‘۔ رعنا آپا نے فخر سے کہا۔
’اور ہم تمھارے وزیر‘ قدسیہ باجی بولیں۔
’ہم تو بھئی سدا کے غلام۔ایکو بار بادشاہ نہیں بنے۔ بھولے بھٹکے وزیر ضرور بن چکے ہیں۔‘ شکیلہ باجی نے تاش کے پتےّ سمیٹ دیۓ۔ ’اب ختم کریں۔‘
’ہم لوگ کھیلیں؟‘ کہکشاں نے اجازت مانگی۔
’خراب مت کرنا پتےّ۔۔۔۔‘
شکیلہ باجی اور دوسری لڑکیاں اٹھ کر برامدے میں چلی گئیں۔
’آؤ تاش کے گھر بنائیں۔ ‘ صبیحہ نے تجویز کیا۔
’دیکھو کس کا گھر اونچا بنتا ہے۔‘ کہکشاں نے بازی لگائی۔ صبیحہ نے جلدی جلدی تاش کے چار پتوّں کو ترچھا کر کے کھڑا کیا اور ان کے اوپر ایک اور پتے کی چھت بنا دی۔ دوسری ’منزل‘ بھی اسی طرح بن گئی۔ اور اب تیسری منزل کے پتے لگا رہی تھی کہکشاں نے ابھی دوسری منزل کے پتے ہی سجاۓ تھے کہ سارا گھر فرش آ رہا۔ صبیحہ کی بھی تیسری منزل کی کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔ مگر صبیحہ کا تاش کا گھر پہلے ہی گرِ چکا تھا۔’ آہا جی۔۔۔ ہم جیت گۓ۔۔ ہمارا گھر دو منزلوں کا!!!‘صبیحہ نے تالی بجائی
’’ہم سے نہیں بنتے ایسے اونچے اونچے گھر۔ ہمارے لیے تو چھوٹا سا گھر ہی کافی ہے۔‘
اداسی سے کہکشاں نے پتےّ پھر سمیٹ دیۓ اور چپ چاپ بڑے کمرے کی الماری پر رکھ آئی۔ وہاں امیّ ایک ساں خاور کی اماّں سے باتیں کیے جا رہی تھیں۔
’بھئی۔۔ مجھے تو ایک آنکھ نہیں بھاتا بھابھی کا رہنا۔ اور پھر اس پر یہ شکیلہ بھی۔ مظہر کے اباّ کو اپنے بھائی کا خاندان بھلے ہی عزیز ہو، مگر میں تو برداشت نہیں کرنے کی!! ‘
’مگر ایمان کی بات ہے کہ شکیلہ لاکھ گنوں کی لڑکی ہے۔‘
’تو کیا میں اپنے مظہر سے اسے بیاہ دوں؟ نہ نہ!! یہ تو نہیں ہونے کا۔ایک تو عقیل بھائی نے اپنی پسند سے رذیلوں کی لڑکی اٹھائی اوراس کی گود بھری۔ اور جب لڑکی جوان ہونے لگی تو گولی کھا کر خود قبر کی گود میں سو گۓ۔ شکیلہ میں بھی اپنے خاندان کی خصلتیں تو آئیں گی ہی۔ ڈوم جو ٹھہریں۔ خود ہی سن لو۔۔۔‘
اور شکیلہ باجی کے کمرے سے مدھمّ سروں میں میٹھی میٹھی آواز آ رہی تھی۔۔۔
اے ری۔۔۔ آلی پیا بنے۔ سکھی کل نہ پرت موہے گھری پل چھِن دِن‘
٭
’شکیلہ باجی!! ‘ کہکشاں نے شکیلہ باجی کی آنکھیں پیچھے سے اپنے ہاتھوں سےبند کرلیں۔
’روٹی جل جاۓ گی بھئی۔ بد تمیزی مت کرو کشی‘
’اچھیّ باجی!! ایک روٹی ہم بھی پکائیں گے‘
کہکشاخ انتظار کرتی رہی۔ اور جب آٹے کی پرات میں آخری دو پیڑے بچے تو شکیلہ باجی نے دونوں پیڑوں سے تھوڑا تھوڑا سا آتا نکالا اور تیسرا چھوٹا پیڑا بنا دیا۔
’یہ تمھارے لئے‘ اور ایک ایک کر کے باقی دونوں روٹیاں بیلنے لگیں۔ اور پھر بیلن پٹرا کہکشاں کے سامنے تھا۔
’ہاتھ دھو کر آئی ہو نا؟؟ ‘شکیلہ باجی نے اپنے سگھڑاپے کا ثبوت دیا اور کچھ بزرگی بھی جتائی۔
’ہاں باجی۔ ‘کہکشاں نے روٹی گول کرنے کی کوشش کی مگر لنکا کا نقشہ ہی بن سکا۔ پھر بھی کہکشاں اس وقت بہت خوش تھی جب اس کی بیلی ہوئی روٹی توے پر سنک رہی تھی۔ اسے یک لخت محسوس ہوا اب اسے کھانا پکانا آ گیا ہے۔ چاۓ بنانی تو اس نے پہلے ہی سیکھ لی تھی کہ پہلے پانی کیتلی میں ابالا جاۓ اور پھر چاۓ کی پتیّ اسی میں ڈال کر اتار لو۔ اور پیالی میں دودھ اور چینی ملا کر چاۓ کا پانی ڈال دو۔ بس چاۓ تیاّر۔ اب کبھی ضرورت پڑی تو کم از کم خود چاۓ بنا ک اس کے ساتھ روٹی تو کھائی ہی جا سکے گی۔ بھوکے تو نہیں رہیں گے۔ اس نے دلِ ہی دلِ میں دعا مانگی کہ کسی دن گھر کے سب بڑے کہیں چلے جائیں تو چاۓ اور روٹی سے ناشتہ کیا جاۓ اور انور، خاور اور صبیحہ کی دعوت بھی کی جاۓ۔
٭
’امیّ ! بھوک لگ رہی ہے‘
انوّ باورچی خانے میں ہی چلا آیا تھا۔ دروازے پر کھڑی امیّ بوا اور شکیلہ باجی کو ہدایتیں دے رہی تھیں۔ بوا برتن بھی دھوتی جا رہی تھیں۔ تانبے اور چینی کے برتنوں کی کھنک کے ساتھ المونیم کے برتن دھلتے وقت عجیب بے سری سی آواز پیدا کر رہے تھے۔ بوا برتن دھو کر باورچی خانے میں رکھی میز پر سجاۓ جا رہی تھیں۔ ان آواز وں میں شکیلہ باجی کی چوڑیوں کی کھنکھناہٹ بھی تھی جنھیں وہ آٹے میں سنے ہاتھوں سے اوپر چڑھا لیتی تھیں مگر آٹا گوندھتے ہوۓ چوڑیاں بار بار سامنے کی طرف سرک آتیں ۔
’تم چوڑیاں نہ پہنو تو اب تک دو چار روٹیاں تیار ہو چکی ہوتیں۔۔‘ امیّ باورچی خانے سے باہر چلی گئیں۔
’بس ابھی دو چار روٹیاں پک جائیں گی تو تم کھانا کھانے بیٹھ جانا۔‘ شکیلہ باجی نے انور کو تسلیّ دی اور چوڑیاں اتار کر طاق پر ایک طرف رکھ کر پھر تیزی سے آٹا گوندھنے لگیں۔ انور انھیں دیکھتا رہا۔ آٹا گوندھنے کے بعد اس کی نظریں لکڑی کے پٹرے پر رہیں۔ وہ غور سے دیکھتا رہا کہ کس طرح شکیلہ باجی آٹے کے پیڑے بنا کر خشکی میں دبا کر ہاتھ سے پھیلاتی ہیں اور پھر پٹرے پر رکھ کر بیلن سے گول بیل دیتی ہیں۔ اور پھر ایک ہلکی سی جنبش اور ایک چاند توے کی سیاہ آسمان پر چمک جاتا۔
پھر بوا نے اس کے سامنے کھانا لا کر رکھ دیا۔ ایک چھوٹی تپائی باورچی خانے میں ایسی ضرورت کے لۓ رہتی تھی۔
’گوشت میں ابھی پانی نہیں ڈالا ہے۔ بھنا ہوا ہی کھا لو۔ ‘ شکیلہ باجی نے اس کی پلیٹ میں ایک گرم گرم روٹی رکھ دی اور انور کھانے لگا اور دیکھتا رہا روٹیوں سے زیادی شکیلہ باجی کے ہاتھوں کو۔ اور کھانا ختم کر کے بھی یہی کھیل دیکھتا رہا۔ آٹے کی پیڑے پرات میں کم ہوتے گۓ۔ اور انور کھیل ختم ہونے کے خیال سے افسردہ ہونے لگا۔ پھر اچانک ایک خوش گوار احساس نے اسے ایک اور لمحے کا منتظر کر دیا۔ روٹی پکا کر شکیلہ باجی نے توا چولھے کے کنارے اوندھا دیا تھا۔
’توا ہنس رہا ہے!! توا ہنس رہا ہے!!‘
توے کے اندر والے حصےّ میں چنگاریوں کے سرخ ستارے جھلملا رہے تھے۔
’راکھ ڈالو۔ توے کا جلنا اچھاّ نہیں ہوتا۔ ‘ بوا نے مشورہ دے کر خود ہی جلدی سے توے پر راکھ کی مٹھیّ بکھیردی۔
٭
امیّ اور چچیّ بی دونوں اپنے سامنے کدو کش رکھےگاجریں کدو کش کر رہی تھیں۔
'آہا۔۔گاجرکا حلوہ !!' کہکشاں نے سوچا اور اس کے مونہہ میں پانی بھر آیا۔ وہ خاموشی سے امیّ کے پاس بیٹھی یہ تماشہ دیکھتی رہی۔ صبیحہ آنگن میں شکیلہ باجی کا دوپٹہّ سکھانے میں مدد دے رہی تھی جو انھوں نے ابھی شنجرفی رنگ میں رنگا تھا۔ اور امی چچیّ بی سے گاجر چھیلتے چھیلتے باتیں کئے جا رہی تھیں۔
"سبزیوں والا باغ تو بکِ چکا۔ اب کیا گاجروں کا حلوہ بنے۔ ایک زمانہ تھا کہ میں نے انھیں ہاتھوں سے من من بھر گاجروں کا حلوہ بنایا ہے۔"
"وہ زمانہ تو کب کا لد چکا دلہن۔۔۔" چچیّ بی کی آنکھوں کے سامنے سے ماضی کے سایوں کا جلوس گزرنے لگا۔
"اور اب ظاہر ہے کہ گاجریں خرید کر تھوڑا سا حلوہ بنایا جائے اور اس میں بھی غیر حصہّ بٹا لیں تو کیا ملے گا بچوں کو۔۔؟"
امیّ نے آخری گاجر کدوکش کر کے کدوکش الٹا کر کے جھٹکتے ہوئے کنکھیوں سے چچی بی کی نورانی آنکھوں میں مہیب سایوں کا جلوس گزرتے دیکھا۔ یہ صفا ان پر چوٹ تھی۔
ّنگن میں دھوپ تیز ہو گئی تھی، شکیلہ باجی کا دوپٹہّ سوکھ چکا تھا، وہ دھیرے دھیرے قدموں سے برامدے میں چلی آئی تھیں اور امیّ اور چچی بی کی باتوں کو خاموشی سے ایک لمحہ سن کر کچھ سوچتے ہوئے تیزی سے اپنے کمرے کی طرف چلی گئیں ۔ ملحقہ کمرے سے دوسری ہی آوازیں ان کو دعوتِ سامعہ دے رہی تھیں۔
٭
"اباّ میاں! گیہوں کی کٹائی اب قریب ہے۔۔۔۔۔۔"
"بھئی۔ مجھ سے مشورہ لینے کی کیا ضرورت۔ میں ٹھہرا مفلوج آدمی۔ تم ہی منشی فضل دین سے کہہ کر آدمیوں کو لگوالو۔"
"اباّ میاں، میں بھی یہی کہنے جا رہا تھا کہ منشی جی کو بلوا لیتے ہیں۔ آپ خود ہی ان کو حکم دے دیجئے گا، وہ سنبھال لیں گے۔ اس لئے کہ اب میرا کھیتوں میں جانے کا ارادہ نہیں ہے"
"بھائی، تم نے خود ہی تو کھیتوں میں کام کرنے کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا ۔ تم کو پڑھ لکھ کر بھی ھل چلانا زیادہ پسند تھا کہ گوروں کی نوکری تم کرنا نہیں چاہتے"
ؔاباّ میاں! میں آزادی کے لئے کام کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔"
اباّ میاں کے ذہن پر 'زمیںدار' اخبار کی کئی سرخیاں دھول اڑاتی تیز رفتار بگھیّوں کی طرح گزر گئیں۔
'دہشت پسندوں کے گروہ کی گرفتاری'
'خاکسار تحریک'
'مسلم لیگ کے جلسے میں کانگریسیوں کی رخنہ اندازی'
'غسل خانہ خارجِ مسجد ہے۔ مفتی کان پور کا بیان'
آزاد ہند فوج۔۔۔ دہشت پسند۔۔۔مسلم لیگ۔۔۔ کانگریس۔۔۔عقیل بھائی۔۔۔۔ محمدّ علی۔۔۔۔۔
'میں شیروانی اور کرتے کے بٹن بھی کھول دیتا ہوں کہ گولی اور میرے سینے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔۔'
اباّ میاں! میں آزادی کے لئے کام کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔" ان کے ذہن میں پھر مظہر کی آواز گونجی۔ انور چپ چاپ کھڑا بڑے بھیاّ اور اباّ کو دیکھتا رہا۔ اباّ میاں کی ایک بوڑھی سفیدلٹ گھنی مونچھوں پر آ گری جسے انھوں نے اپنے رومال والے ہاتھ سے سر کی طرف پھینکتے ہوئے آنکھوں کے گوشے صاف کئے۔
"تم جو بھی کرو، حق کے لئے کرو۔ تم اپنے عقیل چچا کے بھتیجے ہو. اس صغیر اللہ کی اولاد ہو جسے سن ستاّون میں گوروں کا مقابلہ کرنے پر انعام کے طور پر سرکار سے یہ زمینیں ملی تھیں جن کی پیداوار تم اب تک کھاتے رہے ہو۔ حالانکہ اب ہم کو خود ہی اپنی رعایا۔۔۔۔۔۔۔‘ اباّ میاں رکے۔ انور دروازے کی اوٹ میں چپ چاپ کھڑا یہ پر اسرار باتیں سن رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ دنیا میں اب بھی کتنی باتیں ایسی ہیں جو نہ سمجھ میں آنے والی ہیں۔ سیدّ صاحب، سر کٹے اور پچھل پائیاں تو زندگی کا ضروری جز اور بے حد حقیقی چیزیں تھیں۔ ایک دم سامنے کی باتیں جو آسانی سے سمجھ میں آ جاتی تھیں۔ مگر یہ باتیں!!! دس گیارہ سال کی عمر میں تو اسے یہ سب باتیں سمجھ میں آجانی چاہئے اور اپنے سے چھوٹے خاور اور صبیحہ کو سمجھا بھی دینا چاہۓ تھا۔
٭
انور ۔کہکشاں اور خاور۔صبیحہ کے گھروں کے آنگنوں میں کھلنے والی مشترکہ کھڑکی دن میں کئی بار کھلتی۔ کبھی ایک طرف سے بند ہوتی تو دوسری طرف سے کھڑکی بجا کر دستک دی جاتی۔ چاروں کے کان اس دستک کی پہچان میں بے حد تیز تھے کی ان کی آمد و رفت کا تو راستہ ہی یہ تھا۔ مختلف چیزوں کا تبادلہ ان کی ماؤں میں ہوتا اور یہ فریضہ بھی ان چاروں میں سے کسی کا ہوتا۔
اس دن بے حد صبح شاید چاروں ابھی سو ہی رہے تھے کہ کھڑکی پر دستک ہوئی تھی۔ آنگن کے پار کوٹھری میں سوئی ہوئی بوا اور غفور کی آنکھ کھل گئی۔ غفور نے کھڑکی کھولی۔ خاور کی امیّ پریشان سی کھڑی تھیں۔ ان کے ہاتھ میں ٹیلی گرام تھا۔۔۔
’ذرا جلدی سے مظہر میاں سے یہ تار پڑھوا دو۔ سو رہے ہوں تو جگا دو۔۔‘
غفور تار لے کر بڑے بھیاّ کے کمرے کی طرف اتنی تیزی سے گیا کہ کئی لوگوں کی آنکھ کھل گئی۔
’ بڑے بھیاّ!‘ اس نے دروازے پر دستک دی۔ اندر سے کوئی آواز نہ آئی۔ ’ بڑے بھیاّ!‘ اس نے دروازہ بجانے کے لۓ پھر دروازے پر ہاتھ رکھا تو تھوڑے دھکےّ سے دروازہ کھکل گیا جو اندر سے بند نہیں تھا۔ بڑے بھیاّ کمرے میں نہیں تھے۔ ان کے بستر پر بے شمار سلوٹیں پڑی ہوئی تھیں اور اباّ میاں پکار رہے تھے۔۔۔
’مظہر کو ابھی مت اٹھاؤ۔ تار مجھے دو میں پڑھ دیتا ہوں۔۔۔‘
غفور نے ٹیلی گرام ان کے ہاتھ میں دے دیا۔ اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا، اباّ میاں نے تار بلند آواز میں پڑھا۔۔۔
’’ JAMAL EXPIRED(.) COME SOON رام پور سے آیا ہے یہ تار۔ بھابھی سے کہو کہ ان کے بھائی جمال کا انتقال ہو گیا ہے۔ انّ لِلّلہ واِنَّ اِلیہِ راجعون۔ ان کو فوراً بلایا ہے۔‘‘
’مگرصاحب بڑے بھیاّ؟؟؟‘
انور اور کہکشاں بڑے بھیاّ کے کمرے میں جھانک رہے تھے۔ کل شام کو انھوں نے وعدہ کیا تھا کہ اگر کل صبح وہ انھیں سلام کرنے آئیں گے تو ان کو انعام دیا جاۓ گا۔ انور کی فرمائش کلر باکس کی تھی اور کہکشاں کی تصویروں والی کہانی کی کتاب کی۔ مگر بڑے بھیا نہ جانے کہاں غائب تھے۔ البتہّ ان کے سرہانے کی تپائی پر ایک کلر باکس اور دو کہانی کی کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ انور نے جلدی سے رنگ کا ڈبہّ اٹھا لیا اور اسے ایسا محسوس ہوا جیسے کلر باکس پر بنا خرگوش بھاگتے بھاگتے دور سرسوں کے کھیتوں میں نکل گیا ہے اور صبیحہ کی کتابوں کے سر ورق پر بنے پھولوں پر کوئی سچ مچ کی تتلی آ بیٹھی ہے جو لمحے بھر بعد اڑ جاۓ گی۔
٭
پھر ان چاتروں کی چوکڑی میں ایک پانچواں سوار جنید شامل ہو گیا تھا۔ جنید جسے خاور کی امیّ رام پور سے لے آئی تھیں۔ ان کے مرحوم بھائی کی یاد گار جن کا ٹرک کے حادثے میں انتقال ہو گیا تھا۔ وہ بڑےفخر سے اپنے شہر رام پور کی باتیں بتا رہا تھا۔ ۔۔
’’اور ہمارے اسکول کے سامنے اتنا بڑا میدان تھا۔۔ جی ہاں جناب کہ گلیّ ڈنڈا کھیلنے میں مجال ہے جو گلیّ کبھی ہزار ہو جاۓ۔ ایک بار میں نے ہی گلیّ ہزار کی تھی۔ پہلے ہی ٹلٗ میں گلیّ آدھے میدان کو پار کر گئی تھی۔ پھر دوسرے کے بعد تیسرا ٹلٗ جو میں نے مارا تو گلیّ میدان کے باہر اسپتال کی چھت پر۔۔!!! اس دن کھیل میں اتنا مزا آیا تھا کہ گھر جانا یاد ہی نہیں رہا۔ اس دن ابا جان نے بہت مارا تھا۔۔۔‘‘
’’اباّ جان تم کو بہت مارتے ہیں کیا۔۔۔؟‘‘انور نے تعجب سے پوچھا۔
’’ہاں۔۔۔۔ بہت مارتے تھے‘‘ اس نے ’تھے ‘پر زور دیا۔ ’’اب تو وہ اپنی قبر میں گھسنے والے بجوّوں کو مارتے ہوں گے ‘‘۔ وہ استہزا سے ہنسا۔
’’اور امی ۔۔؟‘‘ انور کو جمال ماموں کی وفات کی بات بھول جانے پر شرمندگی کا احساس ہوا۔
’’اماں کا تو یاد ہی نہیں۔ میں بہت چھوٹا تھا کہ ایک دن وہ اسپتال گئیں تو واپس ہی نہیں آئیں۔ گھر میں خالہ تھیں۔ وہ نہ مارتی تھیں نہ پیار ہی کرتی تھیں‘‘ انور کو شکیلہ باجی کی بات یاد آئی۔ انھوں نے کہا تھا کہ ایک بار ان کے ابوّ ۔ عقیل چچا۔ اسپتال گۓ تو واپس ہی نہیں آۓ‘‘۔
’’یہ لوگ اسپتال کیوں جاتے ہیں جب واپس نہیں آ سکتے ‘‘۔ خاور نے اپنی راۓ ظاہر کی ۔
’’اسپتال تو علاج کے لۓ ہوتا ہے بیوقوف۔ مگر کسی کسی کا علاج ٹھیک نہیں ہو پاتا تو وہ بیماری سے مر جاتا ہے۔ دل دھڑکنا بند ہو جاتا ہے اور سانس رک جاتی ہے۔ پھر لوگ لے جاکر قبر میں لٹا دیتے ہیں۔‘‘ جنید نے نہایت عقل مندی اور بزرگی کا ثبوت دیا۔
اب تو شاید جنید بھی میرے ساتھ اسکول میں داخل کیا جاۓ گا۔ انور نے خوشی سے سوچا۔ مگر جنید نے ہی ایک بار بتایا تھاکہ وہ تو اپنے کسی دوست کے گھر سے لاکر اپنے سے اگلے درجے کی کتابیں بھی پڑھ چکا تھا۔ نئی کلاس شروع ہوتے ہی نئی نئی کتابیں آتی تھیں اور وہ پہلی ہی رات میں سارے سال کا کورس ختم کر دیتا تھا۔ اور اگلے اگلے دنوں میں دوسرے درجوں کی کتابیں مانگ کر لاتا تھا۔ کتنا قابل تھا بھئی یہ جنید!!
’’تم اسکول میں پڑھو گے۔۔؟‘‘ انور نے پوچھا۔
’’ہاں۔ امتحان پاس کرنے کے لۓ تو اسکول جانا ہی ہوگا۔ اور تمھارے اسکول کی ہی بات ہو رہی ہے۔ پھوپھا جان بتا رہے تھے۔ مگر بھائی ۔۔۔۔۔اب تو میں کتابیں لکھوں گا٬!!‘‘
’کیا مطلب؟‘خاور کی سمجھ میں بات نہیں آئی۔ ’
’ارے، یہ جتنی کتابیں ہوتی ہیں نا، رسالوں میں کہانیاں نظمیں ہوتی ہیں، یہ لوگ خود ہی تو لکھتے ہیں ہم تم جیسے۔ میری دو تین کہانیاں ’پھلواری‘ میں چھپ بھی چکی ہیں۔....‘
’پھلواری۔۔۔؟‘
’ارے وہ بچوںّ کا رسالہ ہوتا ہے نا۔ میں کچھ پرچے لے کر آیا ہوں،۔ دیکھ لینا۔ مزے کی کہانیاں نظمیں ہوتی ہیں اس میں۔ اب تو میں کہانیوں کی کتابیں لکھنے کی سوچ رہا ہوں۔۔‘
خاور اور انور نےجنید کو دفعتاً اپنے سے بے حد بہتر محسوس کیا اور احساسِ کم تری سے محجوب ہو کر جدا پو گۓ۔
٭
انور نے آ کر حسبِ معمول بڑے بھیا کے کمرے میں جھانکا۔ ان کا کمرہ ترتیب سے سجا دیا گیا تھا۔ مینٹل پیس پر ان کی بکھرے بالوں والی تصویر مسکرا رہی تھی۔ بستر قرینے سے لگا ہواتھا۔ سرہانے کے دریچے سے ہوا کے ساتھ کمرے میں گھس آۓ عشق پیچاں کے پتےّ شکیلہ باجی کے چہرے کو سہلا رہے تھےاور ان کی بے حد چمکیلی آنکھوں کے بھیگے کناروں سے اپنی پیاس بجھا رہے تھے۔ نہ جانے کب سےشکیلہ باجی وہاں کھڑی تھیں۔اور کب تک کھڑکی کے پاس کھڑی رہیں۔ نہ جانے کب تک وہاں انوّ شکیلہ باجی کو گم صم کھڑا دیکھتا رہا اور بڑے بھیاّ تصوہر میں مسکراتے رہے۔
٭
سردی کی مختصرچھٹّیوں کے بعد اسکول پھر کھل گۓ تھے اور دھیرے دھیرے گرمیاں بھی آ گئیں۔ اور ایک دن پانچوں سوار چونکے تو ان کو یہ احساس ہوا کہ آج کل ان کو بہت فرصت ہے۔ امتحان نزدیک سہی، مگر دن بہت بڑا ہے۔ اسکول بھی صبح سویرے کا ہو گیا تھا اور ١١ بجے چھٹیٓ ہو جاتی تھی۔ باقی دن بھر خوب لطف اٹھاۓ جا سکتے ہیں۔ انور، خاور اور جنید طویل ترین راستے سے اسکول سے لوٹا کرتے۔ راستے میں کتنی دل چسپیاں بھی تو بکھری پڑی تھیں!!۔ پتنگ والے چوراہے پر رنگ برنگی پتنگوں کے علاوہ چورن والے کا خوانچہ بھی ہوتا تھا۔۔ چورن میں تو شاید ان کو اتنا ذائقہ محسوس نہیں تھا مگر چورن والا چورن پر کچھ چیز ڈال کر جب آگ دکھاتا تھا تو اس ننھے سے شعلے کے تماشے میں ان کے چورن کی ساری قیمت وصول ہو جاتی تھی۔ اور اس نیک با سعادت فرض کی ادائیگی میں اکثر جیب کا ایک ایک پیسہ خرچ کر دیتے تھے جو ان کو اسکول کے وقفے میں خرچ کرنے کے لۓ دیا جاتا تھا۔
پھر بڑی مسجد کے پاس والا پیپل کا پیڑ تھا۔ جس کی ضڑوں کے پاس پتھرّوں میں گیرو لگا ہواتھا اور آس پاس کے ہندو گھروں کی عورتیں ناریل توڑ کر یا دودھ اور پانی بہا کر اس کی پوجا کرتی تھیں۔ اورجس کے سو شاخہ تنے سے ایسا منظر بنتا تھا جیسے کرشن جی اپنے مخصوص پوز میں ایک ٹانگ دوسری پر رکھے بانسری بجا رہے ہوں اور مسجد کے مناروں پر کبوتر۔ سیدّ صاحب!۔ اور تھوڑا آگے بسم اللہ ہوٹل پر ھبنے والے ریکارڈ ’’تیری گٹھری میں لاگا چور مسافر جاگ ذرا‘‘ اور اس کے ساتھ آواز ملا کر وہ گاتے۔۔۔۔’’مسافر بھاگ ذرا‘‘ اور خود بھی بگھاگتے ہوۓ آگے بڑھ جاتے۔ گھر آ کر کھانا کھاتے۔ پھر ساری دوپہر پڑی تھی۔ دوپہر کھانے کے بعد سارے بزرگ آرام کرتے تھے۔
ایسی ہی ایک گرم دو پہر کو انور نے اپنے کمرے سے نکل کر دوسرے کمروں میں جھانکا۔ چچیّ بی گہری نیند سو رہی تھیں۔ اور شاید ایسے ہی خواب دیکھ رہی تھیں جو وہ ہمیشہ امیّ کو سناتیں اور امی اپنا کام کرتے کرتے بے دھیانی سے ’ہاں۔ ہوں‘ کرتی رہتیں۔
’’..کیا دیکھتی ہوں کہ ایک کنواں ہے اور اس میں بہت گہرا پانی ہے۔ میں جھانکتی ہوں تو مجھے کنویں کی گہرائی میں شکیلہ کے ابوّ دکھائی دیتے ہیں جیسے وہ وہاں تیر رہے ہوں۔۔ پھر مجھے پکارتے ہیں کہ مجھے نکالو۔ میں تیزی سے ڈول ڈالتی ہوں اورتھوڑی دیر بعد ڈول نکالتی ہوں تو دیکھتی ہوں کہ اس میں شکیلہ کا نارنجی دوپٹّہ نکلتا ہے جو میں نے اس کے چوتھی کے جوڑے کے ساتھ بنایا ہے۔ بھیگے ہوۓ دوپٹےّ کو دیکھ کر میں چیخ مارتی ہوں اور میری آنکھ کھل جاتی ہے۔۔۔۔۔۔‘‘
انور نے یہ خواب سن کر پچھواڑے کے کنویں میں جھانکا تھا مگر اسے اس کنویں سے اسے کبھی کوئی دلچسپی پیدا نہیں ہوئی۔ سواۓ اس وقت کے جب ایک بلاّ کنویں میں گر کر مر گیا تھا اور اباّ میاں نے منشی چچااور بڑے بھیاّ سے چالیس ڈول پانی گن کر باہر نکلوا کر پھنکوایا تھا کنویں کو پاک کرنے کے لۓ۔
امیّ اور چچیّ بی کو سوتا دیکھ کر انور آگے بڑھ گیا۔ اباّ میاں کے کمرے میں جھانکا۔ ان کے سینے پر ’زمیں دار‘ اخبار کھلا پڑا تھا اور ان کے خراّنٹوں اور ہوا کے ساتھ اخبار کے ورق پھڑپھڑانی کی آوازوں سے فضا گونج رہی تھی۔ ان کے سر کی طرف بڑا سا پنکھا ساکت تھا۔ اس کی دوری برامدے میں لیٹے ہوۓ غحفور تک چلی گئی تھی جو میلی سی بوری کے بستر پر لیٹا ہوا سو گیا تھا۔ انور نے غفور کو دھیرے سے جھنجھوڑا۔۔
’’پنکھا نہیں چل رہا ہے۔۔۔۔‘‘ اس نے غفور کو اطلاّع دی۔ غفور نے آنکھیں مل کر کھولیں مگر اس سے پہلے ہی وہ مستعدی سے پنکھا ہلانا شروع کر چکا تھا۔ انور کو اطمینان ہو گیا کہ اب پنکھا بند ہو جانے کی گرمے سے اباّ میاں کی آنکھ کھلنے کا بھی خطرہ نہیں ہے۔ امیّ کے کمرے کا پنکھا بوا ہلا رہی تھیں۔ دالان میں ہی کہکشاں مل گئی۔ انور نے غفور کے سو جانے کی بات ہنس کر سنا ئی مگر زیرِ لب۔ اور پھر دونوں خاور اور صبیحہ کے آنگن کی کھڑکی پر دستک دے رہے تھے۔
٭
پانچوں لوُ کے باوجود جیسے ٹہلتے ہوۓ سرکنڈوں کی جھاڑیوں تک گۓ اور کب واپس آ رہے تھے تو ان کے ہاتھوں میں ڈھیروں سر کنڈوں کی گانٹھیں تھیں۔ اور پھر بے حد انہماک سے سر کنڈوں کی مختلف چیزیں بنائی جا رہی تھیں۔
’’دیکھۓ جناب۔ ہم نے نہایت شاندار پستول بنایا ہے۔۔۔‘‘ جنید نے سر کنڈوں کے پستول کو ہاتھوں میں اٹھایا۔۔۔۔’’ہینڈس اپ۔۔۔۔۔!!!! ‘‘
یہ یقیناً جنید نے ان انگریزی فلموں سے سیکھا ہوگا جو اس نے اپنے اباّ کے ساتھ دیکھی ہوں گی۔
’’یہ دیکھو، پورا صوفہ سیٹ تیار ہو گیا۔ ایک میز، دو کرسیاں اور ایک لمبا والا صوفہ۔‘‘ یہ صبیحہ تھی۔
دھوپ میں زردی آتی گئی اور فرنیچر اور گھر ٹوٹتے رہے، بنتے رہے۔ اور سورج سرکنڈوں کی جھاڑیوں کے پیچھے چھپنے لگا۔
٭
وہ اتوار کی چھٹیّ کی صبح تھی جب موسم ہمیشہ خوش گوار لگتا ہے۔ کہکشاں کو شکیلہ باجی اپنے ساتھ کہیں لے گئی تھیں اور انور اکیلا تھا۔ اس نے پائیں باغ کی طرف قدم بڑھا دۓ۔ ہر طرف یکسانیت تھی۔ سارے درخت ویسے ہی سر جھکاۓ کھڑے تھے۔ اس وقت ہوا بند تھی۔ اب دن چڑھے گا تو لوُ چلنی شروع ہو گی، پھر درختوں کے پتےّ بین کرتے زمین پر بکھرنے لگیں گے۔ مگر اس وقت کاموشی اور سکون تھا۔ سارے درخت۔۔ مگر نہیں۔۔ پپیتے کا درخت اپنی جگہ سے غائب تھا۔ اسے یاد آیا۔ کچھ دن پہلے مولوی چچا، اباّ میاں کے دوست لکھنؤ سے آۓ تھے۔ اور اپنے ہاتھوں سے انھوں نے پپیتے کا درخت ہلا ہلا کر اکھاڑ دیا تھا۔ ’’میرے ہوتے ہوۓ جمیل میاں، پپیتے کا یہ منحوس درخت میں نہیں رہنے دوں گا۔ ابھی مجھ میں اتنا دم تو ہے۔‘‘ انھوں نے اپنی چاند ستاروں والی ہری ٹوپی امرود کے درخت کی نکلی ہوئی ننگی شاخ پر لٹکا دی تھی اور دونوں ہاتھوں سے پپیتے کے تنے کو جھنجھوڑنے لگے تھے۔
انور اور کہکشاں مولوی چچا کو پپیتے سے کشتی لڑتے دیکھتے کبھی ان کی چاند ستاروں والی عجیب سی ٹوپی پر شاخوں سے چھنتی دھوپ سے مزید نقش و نگار بنتے ہوۓ دیکھتے رہے۔
باغ سے وہ آنگن میں آیا اور خاور کو بلانے کے لۓ کھڑکی پر دستک دی۔
’’بھائی جان تو پڑھ رہے ہیں‘‘ صبیحہ نے اطلاّع دی۔ تو ابھی تک وہ بڈھاّ ماسٹر بیٹھا ہوا ہے۔۔ انور نے سوچا۔۔ اسکول والے ماسٹر صاحب ہی کافی نہیں ہیں کیا؟؟ ’’تم آ رہی ہو؟‘‘ انور نے پوچھا مگر جواب دۓ بغیر بلکہ سوال مکمل ہونے سے پہلے صبیحہ کھڑکی پھلانگ چکی تھی اور انور کے آنگن میں اتر آئی تھی۔
’’آؤ۔ کاغذ کے ہوائی جہاز بنائیں‘‘۔ انور اباّ میاں کے کمرے سے پرانے اخبار اٹھا لایا تھا۔
پھر ہوائی جہاز بنتے بگڑتے رہے۔ کچھ اڑے، کچھ اڑ نہ پاۓ۔ اس کے بعد کشتیوں کا نمبر آیا، باغ کی نالی میں ایک کے بعد ایک کشتیاں اترتی رہیں، تیرتی ڈوبتی رہیں۔ ’’چلع کشتیوں کی ریس ہو جاۓ‘‘
’’یہ میری کشتی، تصویر کے کاغذ والی‘‘ صبیحہ نے اپنی ناؤ کی پہچان بتائی۔ ’’اور یہ میری‘‘۔ انور کی ناؤ کچھ دور تک بہتی چلی گئی مگر صبیحہ کی کشتی تھوڑی دور ہی تیر کر جھکی اور پانی میں ڈوب گئ۔ صبیحہ کی آنکھوں میں آنسو آُ گۓ۔
’’ارے روتی ہو‘‘۔ انور نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا۔ ’’وہ تصویر والی کشتی میری تھی بھائی ۔ تمھاری کشتی ہی جیت گئی ہے۔ آؤ تم کو اپنی صندوقچی دکھاؤں‘‘ اور انور صبیحہ کو اپنے کمرے میں لے آیا۔ اور کچھ دیر بعد اس نے فرش پر اپنی ساری کائنات ڈھیر کردی۔ نیلی پیلی شیشے کی گولیاں، پلاسٹک کے ننھے ننھے جانور، رنگ برنگ کی تتلیوں کے پر، سنہری بٹن، دو چار خوبسورت سے ڈاک کے ٹکٹ۔ کچھ ہوائی جہازوں کی رنگین تصویریں۔ اور ایک ننھی منی سی ڈائری جو اس نے اباّ میاں سے لی تھی۔
’’یہ سب تم لے لو‘‘۔
’’میں۔۔۔۔۔۔۔؟؟‘‘ صبیحہ نے حیرت سے آنکھیں پھاڑ دیں۔ اس کی آنکھوں کی جھیل خشک ہو چکی تھی۔
’’ہاں ہاں۔ لے لو۔۔۔ سچ مچ!!‘‘ انور نے اس طرح کہا جیسے وہ صبیحہ سے بہت بڑا اور اس کا بزرگ ہو۔
’’میرے پاس دو ہار ہیں۔ ایک تم کو لا دیتی ہوں۔‘‘ صبیحہ بھاگتی ہوئی اپنی کھڑکی کی طرف گئ۔ اور پھر واپس آئی تو اس کے ہاتھوں میں ایک زنجیر تھی جو شیشے کی رنگین چوڑیوں کے ٹکڑوں کو چراغ کے شعلے پر موڑ موڑ کر بنائی گئ تھی۔
٭
پھر آموں کا موسم آیا اور پرانا ہو گیا۔ آم کھا کھا کر انھوں نے گٹھلیاں جمع کیں اور لیموں کے درخت کے نیچے بو دیں۔ کچھ دن بعد ان کے ’پپیۓ‘ اُگ آۓ۔ بڑی احتیاط سے انھیں توڑا گیا۔ انور، کہکشاں، خاور، صبیحہ اور جنید سب نے اپنے اپنے پپیۓ تقسیم اور منتخب کۓ، پھر ان کے گھسے کانے کے عمل کے ساتھ ساون کی بوندیں بھی پانچ آوازوں کے ساتھ کورس میں گا رہی تھیں:
آم کا
جام کا
کھڑی ببول کا
میرا پپیاّ بولے
پٹ پوں
پٹ پوں
پٹ پوں
صبیحہ کو یہ ’وظیفہ‘ یاد نہیں تھا۔ اس لۓ وہ مایوس نظر آ رہی تھی۔ معلوم نہیں اس جادوئی منمتر کے بغیر اس کا پپیاّ بول بھی سکے گا یا نہیں؟ مگر باقی سب زور زور سے چلاّۓ جا رہے تھے۔
’’پٹ پوں
پٹ پوں
پٹ پوں‘‘
اور صبیحہ پپۓ کو مزید گھسنے سے بور ہو کر منہہ کے پاس لا کر اسے بجانے کی کوشش کی تو اس کی ساری مایوسی دور ہو چکی تھی۔ اور بعد میں جب معلوم ہوا کہ اس کے پپیۓ کی آواز ہی سب سے زیادہ ہے تو اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔
٭
*
’’بادل نا مراد آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔ کچھ بوندیں گرتی بھی ہیں تو گرمی کم بخت کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔‘‘ امیّ ہاتھ کی پنکھیا غصےّ سےپھینکتے ہوۓ برامدے سے بڑے کمرے میں چلی آئیں۔چھت پر لٹکے پنکھے کی طرف دیکھا ۔ ’’یہ غفور مرا ہر وقت سوتا رہتا ہے‘‘
برامدے میں بیٹھے بادلوں سے بننے والےہاتھی گھوڑے دیکھتے ہوۓ انور اور کہکشاں نے کمرے میں نظر ڈالی۔ امیّ کس سے بات کر رہی ہیں۔۔ دونوں نے ایک ساتھ سوچا اور کمرے میں کسی کو نہ پا کر خوف زدہ ہوۓ۔ نہ جانے کمرے میں کون ہےجو ان کو نظر نہیں آ رہا!! دونوں خاموش رہے مگر اس خاموشی میں اس عجیب وقوعے کے بارے میں ہزار گفتگوئیں شامل تھیں۔ کبھی کبھی موسم کے بارے میں اظہار خیال کے لۓ کسی مخاطب کی ضرورت پیش نہیں آتی، یہ انھیں پتہ نہیں تھا۔
*
پہلی بوند گری ٹپ!!
’’یا اللہ خوب برسے کہ جھڑی لگ جاۓ‘‘ ۔ چچیّ بی کو دعائیں مانگنے کی عادت سی تھی۔ ان کے کمرے سے ہر وقت یا اللہ سے شروع ہونے والا کوئی نہ کوئی جملہ سنائی دے جاتا تھا۔ شاید اللہ میاں نے اسی وجہ سے ان کی بات سننا چھوڑ دیا تھا۔
کہکشاں اور صبیحہ آنگن میں نکل آۓ اور بارش میں چکرّ لگاتے ہوۓ گا رہے تھے۔ ’’پانی بابا آیا۔ ککڑی بھٹےّ لایا‘‘۔
’’اری کم بختو۔ پہلی بارش میں نہیں نہاتے، بیمار ہو جاؤ گی‘‘۔
دونوں ڈر کر برامدے میں چلی آئیں اور اب خاور اور جنید بھی وہیں آ گۓ تھے اور برامدے کی پر نالیوں میں بار بار اپنے ہاتھ دھو رہے تھے۔ باہر آنگن میں درختوں کی پتیاّں چمک دار سبز ہو گئی تھیں۔ زمین سے سوندھی مٹیّ کی خوشبو اٹھ رہی تھی۔ ان تیز بارش کی جگہ ہلکی پھوار نے لے لی تھی۔ باہر محلےّ کے بچے چیخ رہے تھے
’برسو رام دھڑاکے سے۔
بڑھیا مر گئی فاقے سے‘
*
ایک برستی شام کو جنید نے اطلاّع دی۔
’’معلوم ہے کی سانپ کے مونہہ میں ایک چیز ہوتی ہے۔ بڑی قیمتی۔۔ اسے منکا کہتے ہیں۔ پھر سانپ بارش کی کسی اندھیری رات کوکسی کھڑکی کی طاق میں یا دیوار کے کسی سوراخ میں یا پھر زمین میں ہی اپنے بل میں اسے اگل دیتا ہے۔ کسی کو یہ منکا مل جاتا ہے تو راتوں رات امیر ہو جاتا ہے۔ شاید ڈھونڈھیں تو ہم کو بھی یہ منکا ملِ جاۓ۔‘‘
کچھ دن پہلے ہی غفور کی کوٹھری کے پاس بوا کی پرانی کوٹھری پچھلی برسات میں گر گئی تھی اور اب تک مرمتّ نہ ہونے کی وجہ سے کھنڈر پڑی تھی۔ اسی کوٹھری میں پچھلے دنوں غفور نے سانپ مارا تھا۔ کالا لمبا سا، غفور نے اس کا نام ’ناگ‘ بتایا تھا۔ اور اب اس کوٹھری کا نام سانپ کی کوٹھری پڑ گیا تھا۔
’’سانپ کی کوٹھری میں دیکھیں۔‘‘ انور نے مشورہ دیا۔ ’’شاید وہیں سانپ نے منکا اگلا ہو۔۔‘‘
اور اب سب بنا خوف کے اس کھنڈر میں سانپ کے منکے کی تلاش کر رہے تھے۔ دھوپ ڈھلتی جا رہی تھی اور پھر سورج نے منہہ چھپا لیا۔اندھیرا بڑھ گیا۔
’’دیکھو دیکھو۔۔۔!!‘‘ صبیحہ نے آواز لگائی۔ پچھلی کھڑکی کے نیچے فرش کے ایک سوراخ سے ایک گول سی سرخ شے جھانک رہی تھی۔ ’’ہو نہ ہو، یہی منکا ہے۔ سانپ نے یہیں آ کر اگلا ہوگا‘
پھر دفعتاً سب کو اندھیرے اور سانپ کا ڈر لگا۔ وہ سب تیزی سے باہرآۓ، اور پھر صبح اس سرخ شے کو دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ غفور چلاتا رہا...’’ہم ابہن بڑی ماں سے کہت ہیں کہ بھینّ اور بٹیا لوگ سانپ والی کٹھریا میں گھسے رہے۔ ڈر ناہیں لگت کیا؟؟‘‘
انور سوچنے لگا، صبح سب لوگ اس چیز کو دیکھیں گے، اگر یہ واقعی منکا ہوا تو۔۔۔!! اسے نکال کر اس کا کیا کریں گے؟؟ شاید اس پر جنید قبضہ جمانا چاہے کہ اس نے ہی منکے کی بات بتائی تھی۔ یا شاید صبیحہ رونے لگے۔ خیر صبیحہ رونے لگی تو وہ ضرور اس کی اجازت دے دے گا کہ منکا صبیحہ کو دے دیں۔ اسے مل جاۓ تو کوئی بات نہیں۔ مگر۔۔۔مگر۔۔۔’’سب سے پہلے میں ہی دیکھوں گا منکا کل صبح۔۔۔‘‘
اپنی اپنی جگہ شاید یہی سب ہی سوچ رہے تھے۔
*
مرغ کی پہلی بانگ کے ساتھ ہی انور اٹھ بیٹھا۔ دبے قدموں سے سانپ ًکی کوٹھری کی طرف گیا۔ ابھی روشنی نہیں پھیلی تھی۔ انور کھنڈر کے پاس ہی روشنی ہونے کے انتظار میں کھڑا رہا۔ تھوڑی دیر بعد وہ ہمت کر کے اندر گھسا۔ روشنی بڑھتی رہی مگر وہ سرخ سرخ سی پر اسرارشے اب تک اپنی ماہیت کو واضح نہیں کر سکی تھی۔ وہ ایک ٹک اسے دیکھتا رہا۔ تبھی خاور اور صبیحہ بھی اس کے پاس چلے آۓ، اور پھر کہکشاں بھی، مگر جنیدشاید ابھی سو رہا تھا۔
پھر دن پوری طرح نکل آیا۔سانپ والی کوٹھری کی کچی زمین کے سوراخ میں وہ شے واضح ہونے لگی۔ انور نے اس شے کو نکال لیا۔ پھر وہ چپ چاپ جنید کو خبر کرنے چلے گۓ۔ بے حد مایوس۔
یہ کسی فراک کا سرخ بٹن تھا۔
**