Ibrahim Ashk on M.Mubin
Submitted by mmubinایم ۔ مبین معنویت کی بسنت کا سنت
ابراہیم اشک
کہانی کار ایم ۔ مبین سےمیری پہچان ٩٧٩١ ءمیں ہُوئی ‘ جب ادارہ شمع کو چھوڑ کر میں نےسریتا گروپ کی ملازمت اِختیار کی تھی ۔ اُن دِنوں ایم ۔ مبین کی کہانیاں ” سریتا “ ،” مکتا“ اور ” گرہ شوبھا “ میں کثرت سےشائع ہوتی تھیں ۔ وہ کہانیاں پڑھ کر مجھےاِس بات کا احساس ہونےلگا تھا کہ آگےچل کر یہ کہانی کار ادب میں اپنا کوئی مقام ضرور بنائےگا ۔ اِس بات کو اب چوبیس برس گذر چکےہیں اور ان چوبیس برسوں میں اپنا مقام ادب میں بنانےمیں کامیاب ہوگئےہیں ۔ یہ مقام اُنھوں نےہندی ادب میں بھی بنایا ہےاور اُردو ادب میں بھی ۔ ایسا بہت کم ہوتا ہےکہ کسی ایک زبان کا شاعر ، ادیب یا کہانی کار بیک وقت دو زبانوں کےادب میں اپنا ایک منفرد مقام پیدا کرنےمیں کامیاب ہوجائے۔ ایسےقلم کار اُنگلیوں پر گنےجاسکتےہیں اور یہ بڑی بات ہےکہ ایم ۔ مبین کا نام ان میں شامل ہے۔ جہاں اُردو میں ان کےافسانوں کا مجموعہ” ٹوٹی چھت کا مکان “ ادب میں مقبول ہُوا ہے‘ وہیں دُوسری اور ہندی زبان میں اُن کےافسانوں کا مجموعہ ” یاتنا کا ایک دِن “ عصری ادب کا سنگ ِ میل بن گیا ہے۔ جس پر ایم ۔ مبین کو پچاس ہزار رُوپےکا خصوصی انعام بھی بغیر کسی جوڑ توڑ کےمل چکا ہےاور اِس بات پر جتنا بھی فخر کیا جائے‘ کم ہے۔ کیونکہ آج کل زیادہ تر ایوارڈ یا تو خریدےجاتےہیں یا اقرباءپروری کےشکار ہوتےہیں ۔ ایم ۔ مبین کا دامن اس بندر بانٹ سےقطعی پاک صاف ہے۔ یہ اِس بات کی دلیل ہےکہ اُن کےافسانےاِتنےکھرےاور سچّےہیں کہ جھوٹ ، فریب اور مکّاری کےاِس دور میں بھی اپنا اثر دِکھائےبغیر نہیں رہ سکتے۔ یہ اُن کےقلم کی جیت نہیں تو اور کیا ہے؟
عربی زبان کےایک بڑےنقّاد سےکسی نےپوچھا کہ ” آپ کی نظر میں سب سےاچھا شعر کون سا ہے؟ “ نقّاد نےجواب دیا ۔ ” وہ شعر جسےپڑھنےیا سننےکےبعد ہر کوئی یہ کہنےلگےکہ ایسا تو میں بھی کہہ سکتا ہُوں ‘ لیکن جب وہ کہنےکی کوشش کرےتو کہہ نہ پائے۔ ایم ۔ مبین کی کہانیوں پر بھی یہ بات صادِق آتی ہے۔ اُن کی کہانیاں بھی اِتنی سیدھی اور سرل ہیں کہ پڑھنےوالا یہ سوچنےلگتا ہےکہ ایسی کہانی تو میں بھی لکھ سکتا ہُوں ۔ لیکن لاکھ کوششوں کےباوجود بھی وہ ایسی کہانی نہ لکھ سکے۔
ایم ۔ مبین کی کہانیوں کےموضوعات ہمارےجدید سماج کی منہ بولتی تصویریں ہیں ‘ جن پر دہشت کےسائے، یاتنا کےدِن کی تلخیاں ، آفس میں کا م کرنےوالےدِن بھر کےتھکےہُوئےپُرش کی مجبوریاں ، کرفیو اور بم کےدھماکوں سےگونجتےاور جھلستےشہر کی بھرپور منظر کشی ، اچھےاور بُرےکرداروں کےتجربات اور ان سب کےذریعہ وہ اپنےعہد کی فنکارانہ انداز میں تاریخ لکھتےدِکھائی دیتےہیں ۔ اِس بات کا اعتراف اُنھوں نےخود بھی ” ٹوٹی چھت کا مکان “ میں اپنی بات لکھتےہُوئےاِس طرح کیا ہے۔
” ہر دَور میں کامیاب افسانہ وہی رہا ہے‘ جس میں اس دَور کی عکّاسی جھلکتی ہو ۔ کیونکہ جن افسانوں میں اس دَور کی عکّاسی کی گئی ‘ بعد میں وہی افسانےادبی ، انسانی ، تہذیبی تاریخ کےلئےحوالوں کی طرح کام آئے۔ “
” وراثت “ میں ایک تخلیق کار کےدرد کو بڑےہی پُراثر انداز میں ایم ۔ مبین نےپیش کیا ہے۔ وہ اپنی زندگی کا تمام سرمایہ کتابوں کی شکل میں ردّی والےکو بیچ رہا ہے‘ کیونکہ اس وراثت کو سنبھالنےوالا کوئی نہیں ہے۔
” اِنخلاء“ جنگ کےبھیانک سائےاور سرحد پر بسےگاو¿ں والوں کی دربدری کا منظر نامہ ہے۔ کہانی کار نےایک اچھوتےموضوع کو چھوا ہےاور اِس کےبیان میں پوری طرح کامیاب ہے۔ انسانی تباہی کےتمام منظر آنکھوں کےسامنےگھومنےلگتےہیں ۔
” یودّھا “ ایسےسماج دُشمن عناصر کی کہانی ہے‘ جن کو جیل میں بھی تمام سہولتیں حاصل رہتی ہیں اور جیل اُن کےلئےگھر سےبھی زیادہ عیش و آرام کی جگہ بن جاتی ہے۔ ہندوستانی قانون کےرکھوالےاُن کےسامنےہاتھ باندھےکھڑےہوتےہیں اور ان کی ہر فرمائش پوری کرنا اپنا فرض سمجھتےہیں ۔ ایک مبین کا یہ افسانہ موجودہ دَور کےانصاف اور قانون پر گہرا طنز ہے۔
” تریاق “ ایسےنوجوان کی کہانی ہے‘ جو نشےکی لت میں اِتنا آگےبڑھ جاتا ہےکہ خود کو ناگ سےڈسوانےلگتا ہے۔ ناگ کا زہر اُس کےلئےتریاق بن جاتا ہے۔ یہ کہانی پڑھ کر بےساختہ غالب کا مصرع یاد آجاتا ہے۔ درد کا حد سےگذرنا ہےدوا ہوجانا ۔
” اذان “ مذہبی جنون سےاُجڑتی ہُوئی ‘ مسجدوں اور انسانی نفسیات پر مبنی ایک ایسی کہانی ہے‘ جہاں سب کچھ ختم ہوجانےکےباوجود بھی اس کی بازگشت سُنائی دیتی ہے۔
” بےاماں “ ، ” قاتلوں کےدرمیان “ ، ” دہشت کا ایک دِن “ اور ” مسیحائی “ موجودہ دَور کےفسادات ، ظلم اور بربریت کی زمین سےپیدا ہونےوالی ایسی کہانیاں ہیں ‘ جو آج کےانسان کا مقدر بن چکی ہیں ۔ ہر کوئی ان کہانیوں کےکرداروں کی طرح زندگی گذارنےپر مجبور و بےبس ہے۔
” میزان “ دھرم کےنام پر ادھرم کرنےوالی سیاست کا بھانڈا پھوڑ ہے۔ جس راستےپر اس وقت چل کر کئی جھوٹےمذہبی رہنما عیش و آرام کی زندگی گذاررہےہیں ۔
” قربتیں ، فاصلے“ اور ” سیمنٹ میں دفن آدمی “ وہ افسانےہیں ‘ جن میں مڈل ایسٹ جاکر جدوجہد کرنےوالےکرداروں کا کرب دِل کو چھولینےوالےانداز میں اُبھرتا ہے۔
” ٠٣ بچوں کی ماں “ بچوں کی دیکھ بھال کرنےوالی ایک گریجویٹ نوجوان لڑکی کی کہانی ہے‘ جو شادی کےبغیر ہی تیس بچوں کو ماں کا پیار دیتی ہےاور بچےاسےاپنی ماں سےبھی زیادہ پیار کرتےہیں ۔ یہ موضوع بھی اچھوتا ہےاور ایم ۔ مبین نےاِسےبڑی مہارت سےبیان کیا ہے۔
مندرجہ بالا تمام کہانیاں ایم ۔ مبین کےدُوسرےافسانوی مجموعے” نئی صدی کا عذاب “ میں شامل ہیں ۔ جو کچھ نئی صدی کےحالات اور ماحول نےکہانی کار کو دیا ہےاسی کرب کو اُس نےاپنےافسانوں میں پیش کردیا ہے۔
ایم ۔ مبین کی کہانیاں آئینےکی طرح صاف ہیں ‘ جن میں وَقت کی سچّائی کےعکس اُبھرتےدِکھائی دیتےہیں ۔ یہ کہانی کار اپنےآس پاس بکھرےہُوئےسماج کا بھرپور بیان اپنی کہانیوں میں کررہا ہے۔ جنہیں پڑھ کر آئندہ نسلیں آسانی سےیہ جان پہچان سکیں گی کہ اُن کا سماج کن مرحلوں اور منزلوں سےگذرا ہے۔ کہانی کو پھیلانےکا ہنر ایم ۔ مبین کو خوب آتا ہے۔ لیکن مزےکی بات یہ ہےکہ اِس پھیلاو¿ میں وہ کہانی کو دہراتےنہیں ہیں بلکہ اسےدِلچسپ بناتےچلےجاتےہیں ۔ اپنی کہانی میں وہ کسی ماہر گویّےکی طرح کہیں بھی اور کسی بھی تان پر ختم کرسکتےہیں ۔ کہانی کےاختتام کےلئےوہ نہ تو ڈرامائی انداز اپنانےکےقائل ہیں نہ ہی بناوٹ کےعادی ۔ بلکہ بڑی سادگی اور پُرکاری کےساتھ سنجیدہ اور باشعور انسان کی طرح اپنی بات مکمل کردیتےہیں ‘ جس میں اُن کا بھرپور اعتماد شامل ہوتا ہے۔
ایک خاص بات ایم ۔ مبین کےافسانوں میں یہ دیکھنےمیں آتی ہےکہ جس طرح آر ۔ کے۔ نارائن نےاپنی کہانیوں میں ایک نیا شہر ” مالگڈی ڈیز “ تخلیق کیا تھا اور وہاں کےکرداروں پر اپنی کہانیوں کی بُنیاد رکھی تھی ۔ ایم ۔ مبین کی کہانیوں میں کوئی تصوّراتی شہر نہیں ہےبلکہ اُن کےسامنےایک حقیقی شہر ممبئی ہے۔ وہ ممبئی جس کےسرےتمام ہندوستان کےصُوبوں اور وہاں کےتہذیب و تمدن سےجڑےہُوئےہیں ۔ وہ ممبئی کےکردار جن کےمسائل امریکہ کےنیویارک ، فرانس کےپیرس ، برطانیہ کےلندن اور رُوس کےماسکو جیسےشہروں میں رہنےبسنےوالےکرداروں سےکسی طرح کم نہیں ہیں ۔ اِس شہر میں قدم قدم پر کہانیاں بکھری پڑی ہیں ۔ ایم مبین اُنہی بکھری ہُوئی کہانیوں کو سمیٹ کر کتاب کی شکل دےرہےہیں ۔ یہی کام ”بالژاک “ ، ” دوستو وسکی “ اور ” ٹالسٹائی “ نےکیا تھا ۔ ہندوستان کےکہانی کاروں میں ” منٹو “ نےکیا تھا ۔ اور اب مظہر سلیم اور ایم ۔ مبین بھی یہی کام کررہےہیں ‘ یہ اُردو افسانےکےروشن مستقبل کا زندہ ثبوت ہے۔
خدا تخلیقی قوت ہر کسی کو نہیں دیتا اور جسےبھی عطا کرتا ہےوہ اُس کےخاص بندوں میں شامل ہوتاہے۔ جب تک وہ اپنےفن کےساتھ سچّائی اور ایمانداری کو فروغ دینا روا رکھتا ہے‘ خدا بھی اُس مہربان رہتا ہےاور اُسےہر طرح سےنوازتا ہے۔ کیونکہ عزت اور ذِلّت دینےوالا تو وہی ہےاور وہ جس کسی سےبھی جو چاہتا ہے‘ وہ کام اُس سےکروا لیتا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہےکہ اگر انسان خدا کی دی ہُوئی اس تخلیقی صلاحیت کا صحیح استعمال کرنےسےبیگانہ رہا یا اپنےفرض کو بھول کر بھٹکنےلگتا ہےتو خدا اُس سےتخلیقی قوت چھین بھی لیتا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ ہر تخلیق کار کو ہر دَور میں متحرک نہیں دیکھا گیا ہے۔ لیکن جو ہر دَور میں متحرک رہتا ہے، اپنےفرض کو بخوبی انجام دیتا رہتا ہے، اپنی صلاحیتوں کو بروئےکار لاتا رہتا ہے‘ وہی اپنےعہد کا سچا اور اچھا تخلیق کار ہوتا ہے۔ ادب میں اُسی کا مقام بھی بنتا ہےاور دُنیا اُسی کو یاد بھی کرتی ہے۔
ایم ۔ مبین گذشتہ بیس پچّیس برسوں سےمسلسل کہانیاں لکھ رہےہیں اور رسائل میں بدستور شائع بھی ہورہےہیں ۔ اُن کی کہانیاں اپنےقارئین کےدِلوں کو چھوتی اور دماغوں کو جھنجھوڑتی بھی ہیں ۔ ہر کہانی کےبعد اُن کا تخلیقی سفر آگےاور آگےہی بڑھتا رہا ہے۔ اس وقت نئی نسل کےافسانہ نگاروں میں وہ اپنا ایک خاص مقام بنا چکےہیں ‘ لیکن یہ اُن کی منزل نہیں ہی۔ ویسےبھی تخلیق کار کی کوئی منزل نہیں ہوتی ۔ اُس کی زندگی میں تو پڑاو¿ آتےہیں ‘ جہاں وہ کچھ دیر ٹھہرتا ہے، سوچتا ہےاور آگےبڑھ جاتا ہے۔ اُس کی زندگی تو مسلسل سفر میں کٹتی ہے۔ ایم ۔ مبین کی زندگی میں بھی فی الحال ایک پڑاو¿ آیا ہے‘ جہاں اُنھیں کچھ دیر ٹھہرنا ، سوچنا اور آگےبڑھ جانا ہے۔
ایم ۔ مبین کےافسانوں میں بےجا جھلّاہٹ ، انتشار ، کھوکھلا پن اور سطحیت بالکل نہیں ہے‘ بلکہ فکر و خیال کا ایک گہرا اور شانت سمندر ہے‘ جس کی تہہ میںتخلیق کےموتیوں کا لازوال اور بےمثال سرمایہ ہے۔ ایم ۔ مبین ہمارےسنت کوی ریداس اور تکا رام کی طرح اپنےگیان دھیان کےدیپ جلا کر اندھیرےمیں اُجالا کرنےوالا ایک ایسا آدرش کہانی کار ہےجس کی باتوں کی کڑواہٹ میں بھی شہد گھلا ہُوا ہے۔ اُس کےسرل سوبھاو¿ میں ذہنی دباو¿ نہیں ہے‘ بلکہ ایک ایسا تخلیقی رَچاو¿ ہےجو کسی سنت یا بیراگی آتما کی ہی پیداوار کہا جاسکتا ہے۔
میں صاف طور پر اِس بات کا اعلان کردینا چاہتا ہُوں کہ ایم ۔ مبین جدیدیت کےبعد آنےوالےمعنویت کےبسنت کا ایک سنت کہانی کار ہے‘ جس کےافسانوں کی بہار ہندوستانی سماج میں پھیلی ہُوئی دُرگند ھ میں سُوگندھ بکھیر رہی ہیں ۔ آج جب کہ ہمارےملک میں تعصب ، فرقہ پرستی ، مار کاٹ اور انسانی قدروں کی پامالی کی آندھی زور و شور کےساتھ چل رہی ہے‘ ایسےماحول میں امن و انسانیت کےٹھنڈےاور مدھر جھونکوں کی بہت ضرورت ہےاور اِس فرض کو ایم ۔ مبین جیسےسیدھے، سرل ، شانت اور گمبھیر سنت کہانی کار ہی ادا کرسکتےہیں ۔
ایک خاص بات ایم ۔ مبین کےافسانوں میں یہ بھی ہےکہ اُن کےافسانےکسی ایک فرقےیا سماج کےدائرےمیں قید نہیں ہیں ‘ بلکہ تمام ہندوستانیوں کےدِلوں کی دھڑکن سےجڑےہُوئےہیں ۔ اُن کےیہاں کسی طرح کا مذہبی تعصب نہیں ہے۔ وہ جب ظلم کےخلاف بولتےیا انصاف کےلئےآواز بلند کرتےہیں تو وہ آواز ایم ۔ مبین کی نہیں ہوتی بلکہ ہندوستان کےہر مظلوم کی آواز بن جاتی ہے۔ وہ فساد پر لکھیں یا گینگ وار پر ، پولس کےظلم پر قلم اُٹھائیں یا غنڈہ گردی پر ‘ کہیں بھی اُن کا قلم جذباتی نہیں ہو تا ۔ اِس لئےمیں ایم مبین کو سیکیولر اور سنجیدہ افسانہ نگار کہوں گا ۔ اُن کی یہ سنجیدگی کیا رنگ دِکھلائےگی یہ تو آنےوالا وقت ہی بتائےگا لیکن مجھےپوری اُمید ہےکہ افسانوں کی دُنیا میں ایم ۔ مبین گراں قدر اضافہ کریں گے۔ افسانوں کی یہ کتاب ” نئی صدی کا عذاب “ ادبی حلقوں میں مقبول ہی نہیں ہوگی ‘ بلکہ نئی نسل
سنگ ِ میل بھی ثابت ہوگی ۔ میری تمام نیک خواہشات اور دُعائیں اُن کےساتھ ہیں ۔ ٭٭٭
Read this book on internet
http://naisadikaazab.bizhat.com
پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی
بھیونڈی۔۔٢٠ ٣١٢٤
ضلع تھانہ(مہاراشٹر)
Contact:-
M.Mubin
303-Classic Plaza,Teen Batti
BHIWANDI- 421302
Dist.Thane ( Maharashtra,India)
Mob:-09372436628
Email:-mmubin123@gmail.com