کمپیوٹر میں اردو تحریر
Submitted by Aijaz Ubaidکمپیوٹر میں اردو تحریر
اعجاز عبید
اس کلیۓ میں اب کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ یہ دور انفارمیشن ٹکنالوجی کا ہے۔ کوئی میدان ایسا نہیں بچا ہے جس میں کسی نہ کسی مرحلے پر کمپیوٹر کا عمل دخل نہ ہو۔ انٹر نیٹ بھی جو اس سے متعلقہ میدان ہی ہے، اسی طرح اکثر معاملوں میں رو بعمل ہے۔آ ئیۓ دیکھیں کہ اردو کی ادبی، ثقافتی اور صحافتی دنیا اس دور میں کس طرح داخل ہوئی ہے۔
اردو کے معاملے میں کچھ مشکلات تو ہماری زبان کے حروف کی تعداد ہے جو انگریزی سے کہیں زیادہ ہے (ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذر ڑ ز ژ س ش ص ض ط ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء لا ی ے۔ کل ۳۹۔مرکب حروف بھ، پھ، تھ، ٹھ وغیرہ کو چھوڑ کر )۔ اس کے علاوہ ہماری زبان کا اہم مسئلہ یہ ہے کہ اردو کے اکثر حروف کی دو دو یا چارچار شکلیں ہیں۔ مثلاً حرف "م" کو دیکھۓ۔
آم: مفرد شکل
مدد: ابتدائی شکل
کمی: درمیانی شکل
قلم: انتہائی شکل ۔
ایک اور مشکل کی بات بعد میں کروں گا۔ پہلے رسم الخط کی ایک بات کروں۔
اردو کا نستعلیق رسم الخط لاکھ خوبصورت سہی مگر ایک اور اہم مشکل نستعلیق رسم الخط کے باعث ہے، کہ اکثر حروف کی عمودی حالت اس پر منحصر ہے کہ وہ حرف لفظ کا دوسرا، تیسرا حرف ہے یا چھٹا ساتواں۔ اسی "م" کی مثال لوں۔
دو حرقی لفظ "من" میں" م" کی اصل سطر (Base Line) سے ایک مخصوص اونچائی ہے۔ایسا ہی دو حرفی لفظ "مد" لیجۓ۔ اب اس میں م کی شکل اور اونچائی دیکھۓ۔ پتہ چلا کہ یہ بعد میں آنے والے حرف پر بھی منحصر ہے۔ اب تین حرفی الفاظ لیجۓ۔ "منت" اور "مگر"۔ نہ صرف یہ کہ ان کی عمودی حالت مختلف ہے، بلکہ ان کی اونچائی بھی دو حرفی الفاظ کی بہ نسبت کہیں زیادہ ہے۔ چار حرفی لفظ "منظر" لیجۓ ۔ دیکھۓ اب "م" اور اونچا ہو گیا ہے۔ اب ٦حرفی لفظ "مستقبل" کو دیکھیں۔ اصل سطر سے "م" اب کتنا اوپر اٹھ گیا ہے۔ یہی نہیں۔ غور کریں کہ ساتھ ہی دوسرے اور تیسرے حروف بھی اسی طرح اونچے ہوتے جاتے ہیں۔ "مست" اور "مستقبل" دونوں کے "س" کی اونچائی دیکھیں۔ اور یہی وجہ کی اردو پریس اب بھی کتابت سے اپنا پیچھا نہیں چھڑا سکی ہے۔ اب بھی بے شمار رسائل اور کتابیں لیتھو پریس میں چھپتے ہیں۔
اب دیکھیں کہ خطِ نسخ میں اگرچہ اونچائی والا مسئلہ تو نہیں ہے، مگر حروف کی مفرد ، ابتدائی، درمیانی اور انتہائی شکلیں بہر حال ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب اردو (بلکہ در اصل عربی اور فارسی، جن میں معمولی سی تبدیلی کر کے اردو بازار میں لایا گیا) ٹائپ رائٹر بنے تو یہی نسخ استعمال میں آیا۔ فارسی اور عربی میں تو نسخ خط ان علاقوں کے لۓ قطعی عجیب نہیں ہے مگر ہم اردو والے اس سے اب بھی بدکتے ہیں۔ مولانا آزاد نے اردو ٹائپ کو رواج دینے کی بہت کوشش کی کہ لیٹر پریس کی چھپائی میں نسخ میں حرف کی ہر شکل کے بلاکس بن سکتے تھےاور ان کو کمپوزنگ کر کے پلیٹ بنائی جا سکتی تھی۔ پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں پاکستان میں بھی ٹائپ کو رواج دینے کی کوشش کی گئی۔ لاہور سے ماہنامہ "سویرا" اور ان کے مکتبے سے دوسری کتابیں بھی شائع ہوئیں۔
اور جب کمپیوٹر کا چلن شروع ہواتو اس جانب بھی توجہ دی گئی اور "کاتب" اور "راقم" جیسے سافٹ ویر بناۓ گۓ جو DOSنامی آپریٹنگ سسٹم پر مبنی تھے۔ اور اس کے بعد جب نوے کی دہائی میں ونڈوز۱ء۳ اور ونڈوز۹۵بازار میں آۓتو ان آپریٹنگ سسٹموں کی بہتر سہولتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوۓ پاکستان میں "ماہر" اور" اردو ۹۸ " نامی سافٹ ویر بنائے گئے۔ ہندوستان میں "ان پیج" اور "صفحہ ساز" (یا اردو پیج کمپوزر)بنے۔ پوری اردو دنیا میں اب بھی سب سے زیادہ استعمال میں آنے والا سافٹ ویر ان پیج ہی ہے۔ اکثر پریسوں میں اسی کا استعمال ہوتا ہے، اگرچہ حیدر آباد(ہند) میں" صفحہ ساز" کا دور دورہ ہے کہ یہ یہیں بنایا گیا ہے۔
جب کمپیوٹر پر کسی بھی زبان میں کچھ ٹائپ کیا جاتا ہے تو آپریٹنگ سسٹم اسے کئی اعمال سے گزارتا ہے۔ اس کی وجہ در اصل یہ ہے کی کمپیوٹر کی اپنی زبان دوسری ہے جسے بائنری (Binary)کہتے ہیں۔ جب بھی آپ کمپیوٹر کے کی بورڈ پر کوئی کنجی دباتے ہیں تو اس کنجی کا حرف ٹائپ رائٹر کی طرح نہیں ہوتا ہے کہ خود بخود کاغذ پر اتر جاۓ۔ ٹائپ کۓ حرف کو پہلے اسکرین (مانیٹر) پر ظاہر کرنے میں چار عوامل اہم ہیں:
۱۔ کی بورڈ کی قسم
۲۔ آپریٹنگ سسٹم کا تحریری انجن۔
۳۔ ایک پوشیدہ "کوڈ"
۴۔ٹائپ یا فانٹ
اور ان سب کے پیچھے کمپیوٹر کی بائنری زبان۔ جو ہر حرف کو عدی نظام میں سمجھتی ہے۔
عموماً استعمال کے کی بورڈ میں ۴۷ کنجیاں ہوتی ہیں جن سے تحریر (Text)ٹائپ کی جاتی ہے۔ باقی کنجیاں دوسرے کام کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ "شفٹ" کنجی کے ذریعے سینتالیس کنجیوں سے کل چورانوے حروف اور علامتیں پیدا کی جا سکتی ہیں۔ اردو کے انتالیس حروف ک بات ہم کر چکے ہیں۔ اب ان کی مختلف شکلیں پھر دیکھیں:
چار چار شکلوں والے حروف: ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ ص ض ط ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن ہ ھ ی: ۲۷ ضرب ۴۔ ۱۰۸
دو دو شکلوں (ابتدائی اور انتہائی) والے حروف: د ڈ ذ ر ڑ ز ژ و ے ۔ ۱۰X۲=۲۰
اس طرح ہم کو ۱۱۲۸حروف چاہیۓجو کمپیوٹر کی چورانوے کنجیوں سے نہیں بناۓ جا سکتے۔ اور یہ بات میں صرف حروف کی کر رہا ہوں۔ ان کے علاوہ ہم کو کئی علامتیں، رموز اور اوقاف کی ضرورت بھی ہو گی۔ وقفہ (۔)، کاما (،)، سوالیہ نشان (؟)، تخاطب (', ")استمراری (!)، اعداد (ایک سے نو)۔ بلکہ مستعمل علامتوں کی تعداد "اردو میں کچھ زیادہ ہی ہے جن میں تخلص، سن عیسوی/ہجری، صلی اللہ علیہ وسلم، رحمت اللہ علیہ وغیرہ شامل ہیں۔ ان سب کو شمار کیا جاۓ تو حروف اور علامتوں کی کل تعداد ڈیڑھ سو سے تجاوز کر جاتی ہے۔
ایک مسئلہ اردو کا دائیں سے بائیں ہونا بھی ہے۔بلکہ اس سے کہیں زیادہ یہ مشکل ہے کہ اس کے باوجود ہمارے اعداد دائیں سے بائیں ہیں!!
جیسا کہ کہا جا چکا ہے کہ کمپیوٹر محض بائنری زبان سمجھتا ہے۔ اور اس میں اوپر بتاۓ گۓ چار عوامل اس طرح کام کرتے ہیں کہ جیسے آپ نے امریکی انگریزی کی بورڈ(جو عام طور پر مستعمل ہے) پر 'A'کی کنجی دبا ئی۔ آپریٹنگ سسٹم کے تحریری انجن نے کی بورڈ سے یہ پیغام (سگنل) وصول کیا مگر عددی نظام میں ۔ یہ انجن دیکھتا ہے کہ کی بورڈ کون سا ہے، اور پھر یہ کہ "کوڈ " کون سا ہے۔ اگر یہ آسکی (American Standard Code for Information Interchange )ہے تو یہ پیغام عدد ۶۵کی شکل میں تبدیل ہو جاۓ گا۔ اور اس کوڈ کے مطابق یہ انگریزی کا (بلکہ صحیح طور پر کہیں کہ بنیادی لاطینی کا) حرف بڑااے (A) ہے۔ پھر یہ انجن دیکھتا ہے کہ سافٹ ویر جو استعمال کیا گیا ہے اس نے کسی فانٹ کی نشان دہی کی ہے یا نہیں۔ اب اگر آپ مائکروسافٹ ورڈ استعمال کر رہے ہیں اور آپ نے ایریل فانٹ استعمال کیا ہے، تو اس انجن کے ذریعےاس فانٹ میں۵ ۶ عدد والے حرف کی جو شکل یا تصویر (اصطلاح کے مطابق Glyph)، اسے اسکرین پر بھی پیش کیا جاۓ گا ا ور جب آپ پرنٹ کا آرڈر دیں گے تو ایریل فانٹ میں"A"چھپ جاۓ گا۔ اگر سافٹ ویر ایسا ہے جس میں کسی فانٹ کی نشان دہی نہیں ہے (جیسا کسی ٹیکسٹ اڈیٹر جیسے ونڈوز نوٹ پیڈ میں) تو سسٹم فانٹ میں 'A' پرنٹ ہوگا۔
تو یہاں جو کوڈ استعمال میں ہوا وہ آسکی ہے جو اب بھی سب سے زیادہ مستعمل ہے۔ مگر جب عربی کی بورڈ پر یا عربی آپریٹنگ سسٹم میں آپ کی بورڈ پر کچھ ٹائپ کریں گے تو اس کا کوڈ دوسرا ہوگا، چینی کا اور مختلف جیسے Big5۔
اردو کے لۓ ہندوستان میں بھی اسی طرح کی کوشش کی گئی اور ایک کوڈ بنایا گیا جس کا نام رکھا گیا PARSCII (Persio Arabic Standard Code for Information Interchange) ۔جس میں عربی، فارسی، اردو، سندھی، کشمیری وغیرہ شامل ہیں۔ مگر اس کو زیادہ اہمیت حاصل نہیں ہوئی۔
غرض کسی بھی تحریر کو کمپیوٹر کی زبان میں تبدیل کرنے کے لۓ کوئی نہ کوئی کوڈ بہت ضروری ہے۔ اردو بلکہ کسی بھی ہندوستانی زبان کے لۓ جو سافٹ ویر بناۓ گۓ وہ سبھی اسی آسکی نظام پر تھے۔ یہ کس طرح کام کرتے ہیں، اسے سمجھنے کے لۓ ضروری ہے کہ پہلے آسکی کوڈ کو سمجھا جاۓ، یہ پہلےسات بٹ بائنری نظام تھا جس میں صفر سے ۱۲۸تک کے اعداد مختلف حروف اور علامتوں (بلکہ انگریزی لفظ Characterہی زیادہ بہتر ہے جس میں دو الفاظ کے درمیان کی خالی جگہ بھی شامل ہے جسے کی بورڈ کےسپیس بار سے بنایا جاتا ہے)کے حق میں مخصوص تھے۔ بعد میں اسے آٹھ بَٹ نظام (8Bit System, 2x2x2x2x2x2x2x2=256) بنایا گیا اور اس طرح اس میں کل دو سو چھپن (۲۵۶۔ ۲ پر آٹھ کی قوت) کیریکٹرس شامل کۓ جا سکے۔ اس میں کچھ تو آپریٹنگ سسٹم کے لۓ مخصوص تھے۔ یہ اس طرح ہیں:
ASCII 0 – 32 : سسٹم
ASCII 33-64: ! " # $ % & ' ( ) * + , - . / 0 1 2 3 4 5 6 7 8 9 : ; < = > ? @
ASCII 65-90: A B C D E F G H I J K L M N O P Q R S T U V W X Y Z
ASCII 91 -96: [ \ ] ^ - `
ASCII 97 – 122: a b c d e f g h i j k l m n o p q r s t u v w x y z
ASCII 123 – 126: { | } ~ (127-161سسٹم)
ASCII 162-192: ¡ ¢ £ ¤ ¥ ¦ § ¨ © ª « ® ¯ ° ± ² ³ ´ µ • ¸ ¹ º » ¼ ½ ¾ ¿
ASCII 193- 255: À Á Â Ã Ä Å Æ Ç È É Ê Ë Ì Í Î Ï Ð Ñ Ò Ó Ô Õ Ö × Ø Ù Ú Û Ü Ý Þ ß à á â ã äå æ ç è é ê ë ì í î ï ð ñ ò ó ô õ ö ÷ ø ù ú û ü ý þ ÿ
اب میں مقبول سافٹ ویر ان پیج کی مثال دیتے ہوۓ بتانے کی کوشش کروں گا کہ یہ کس طرح کام کرتا ہے۔ اور مثال اسی لفظ کی لوں جو پہلے بھی لی تھی یعنی لفظ "مستقبل" کی۔
اب میں یہ فرض کر کے چل رہا ہوں کہ آپ کو معلوم ہے کہ حرف م کس طرح ٹائپ ہوگا اور حرف س کس کنجی سے۔ اب آپ کسی کنجی کی مدد سے حرف م ٹائپ کرتے ہیں تو اسکرین پر آپ کو مفرد حرف م نظر آۂۓ گا۔ پھر کمپیوٹر (صحیح طور پر اس کا ٹیکسٹ انجن) یہ انتظار کرے گا کہ آپ اس حرف کے بعد سپیس بار دبا کرخالی جگہ چھوڑتے ہیں یا فوراً کوئی دوسرا حرف ٹائپ کرتے ہیں۔ اگر آپ نے اسپیس بار دبائی تو وہ سمجھ لے گا کہ یہ" م" لفظ کا آخری حرف ہے اور اس کی شکل یہی مفرد رہے گی۔ مگر جب آپ مستقبل ٹائپ کرنے کے لۓ اگلا حرف "س" ٹائپ کریں گے، تو یہ انجن پہلے دیکھے گا کہ "م" اور "س" کی ملحقہ صورت کیا ہے۔ اور اب آپ کو "مس" دکھائی دے گا۔ آپ کے "ت" ٹائپ کرنے پر" م"س کی شکل فوراً بدل کر "مست" ہو جاۓ گی۔ اور اس کے بعد کا "ق" ٹائپ کرنے پر "مستق"، پھر" ب" ٹائپ کرنے پر"مستق" "مستقب" سے بدل جاۓ گا۔ اور پھر "ل" کے بعد" مستقبل"۔ اور جب آپ نے اس کے بعد سپیس بار (یا وقفہ۔ یا کاما) دبائی تو یہ انجن جان لے گا کہ اس لفظ کی یہی آخری شکل ہے اور "مستقبل" کی شکل میں کوئی مزید تبدیلی واقع نہیں ہوگی۔
اس سافٹ ویر میں اس طرح استعمال میں آنے والے حرفوں کے ہر مجموعے کی شکلیں (Glyphs) موجود ہیں۔ اور یہ سافٹ ویر کا ہی کام ہے کہ وہ دیکھے کہ اگلی شکل جو بننے والی ہے، وہ کس فانٹ میں ہے اور اس شکل کا متعلقہ فانٹ کا آسکی کوڈ کیا ہے۔ اب آپ سوچ سکتے ہیں کہ "م" فانٹ نمبر ایک میں انگریزی کے "جی" کی جگہ ہےتو "مست" ممکن ہے کہ فانٹ نمبر دس میں سوالیہ نشان کی جگہ پر۔ اس طرح اس سافٹ ویر میں نستعلیق کے لۓ کل ۸۵فانٹ استعمال کۓ گۓ ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ ہر فانٹ میں وہی صفر سے ۲۵۵ (کل۲۵۶ ) آسکی کوڈ والے کیریکٹر استعمال میں آۓ ہیں۔ غرض ان پیج میں ان سارے فانٹس کو ایک ہی نام دیا گیا ہے۔ نوری نستعلیق۔ جب کہ پورا لفظ "مستقبل" ہی ان میں سے ایک فانٹ کی شکل (Glyph)ہے۔
آسکی کوڈ پر منحصر کسی بھی نظام کے سافٹ ویر کے ساتھ یہی مشکل ہے کہ جب آپ مجھے اس کی فائل دیں گے تو مجھے بھی اس سافٹ ویر کی ہی ضرورت ہوگی جو میں اسے پڑھ سکوں۔ ہندی وغیرہ کے سافٹ ویر میں تو یہ ہے کہ آپ مجھے فانٹ کی فائل بھی دے دیں تو میں اس فانٹ کو انسٹال کر کے آپ کی تحریر پڑھ سکوں گا۔ مگر ان پیج میں تو آپ کی تحریر میں ۸۵فانٹ ہیں، لفظ "تحریر" میں ہی دو الگ الگ فانٹ ہیں "تحر" کا الگ اور" یر" کا الگ۔ پھر آپ مجھے ان پیج کی فائل دیں تو میں بغیر ان پیج کے تو پڑھ نہیں سکوں گا۔ اس طرح اس میں فائل Shareنہیں کی جا سکتی۔ اس کی ترکیب ان پیج والوں نے ہی یہ نکالی ہے کہ آپ ہر صفحے کو ایک تصویر (Graphics) کی شکل میں تبدیل (Import) کر سکتے ہیں۔ اب آپ اس تحریر کی تصویر دیکھ سکتے ہیں (جو کہ ایک GIFفائل کی شکل میں ہوتی ہے) انٹر نیٹ کی دنیا میں اردو سے متعلق بے شمار ویب سائٹس میں اسی تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے۔
مگر پرنٹنگ پریس میں جہاں نئی نئی ٹکنا لوجی اپناتے ہوۓ ہر تحریر کو مختلف طریقے سے چھانٹا جاتا ہے۔ مثلاً رنگوں کو علیحدہ کیا جاتا ہے جو پریس میں استعمال کی جانے والی تین یا چار رنگوں میں ہی ہر رنگ پیدا کر سکے۔ ان کو تحریری فائل کی ایک اور شکل درکار ہوتی ہے جسے پرنٹرس کی زبان میں پوسٹ اسکرپٹ کہتے ہیں۔ یہ سب ان پیج میں ممکن نہیں۔ مگر ان پیج کے حالیہ ورژنوں میں یہ سہولت بھی ہے کہ آپ اس کے ٹیکسٹ فریم کو تصویر کی طرح کاپی کر کے کورل ڈرا نامی ڈی۔ٹی۔پی سافٹ ویر میں پیسٹ کر سکتے ہیں اور وہاں اس کے ہر حرف کو بنایا بگاڑا جا سکتا ہے۔ اور اس طرح پرنٹنگ پریس والے عموماً اردو تحریر چھاپتے ہیں۔
اور یہ سب مشکلات اس باعث بھی تھیں کہ اردو کا الگ سے کوئی قابل قبول کوڈ موجود نہیں تھا۔ اردو ہی نہیں، دنیا کی بیشتر زبانوں کا یہی حال تھا۔ کچھ زبانیں تو اوپر سے نیچے بھی لکھی جاتی ہیں جیسے چینی اور جاپانی۔ اور ان زبانوں میں حروف نہیہں بلکہ پورے الفاظ کے لۓ کوئی شکل (Glyph) اسستعمال کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ۱۱۹۹۱ء میں کمپیوٹر کی کچھ بڑی کمپنیوں جیسے ایپل، مائکرو سافٹ، اڈوبی وغیرہ نے ایک نۓ آفاقی کوڈ کے بارے میں سوچا۔ اسے آفاقی کوڈ (Universal/ Unicode) کہا جاتا ہے۔ یہ پہلے ۱۶ بٹ نظام تھا اور اس طرح اس میں دو پر ۱۶ کی طاقت یعنی ۶۵۵۲۶ کیریکٹرس کی گنجائش ہے۔ اور اب اسے ۳۲ اور ۶۴ بٹ نظام کے طور پر ترقی دی جا رہی ہے۔ تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس میں کتنی زبانوں کے ہر کیریکٹر کو شامل کیا جا سکے گا۔ اردو اس سلسلے میں عربی حصےّ کا ہی استعمال کرتی ہے۔اور اسی میں سندھی، پشتو، کشمیری وغیرہ کئی زبانوں کے کیریکٹرس شامل ہیں۔ ہندی سے حاصل اردو کے مخصوص حروف ٹ، ڈ، ڑ وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں اور تین نقطوں والی ف بھی جو سندھی میں شامل ہے۔ اور اب اس کوڈ کا استعمال کر کے تحریر کی جاۓ تو فانٹ کی کوئی مشکل نہیں ہوگی۔ جس طرح کمپیوٹر کسی مخصوص آسکی فانٹ کی عدم موجودگی میں کويئی بھی فانٹ استعمال کر لیتا تھا۔ اور دوسری زبانوں کی مخصوص فانٹ کی تحریروں کو پڑھنے کی کوشش میں Î Ï Ð Ñ Ò Ó Ô Õ جیسے حروف دکھائی دیتے تھے، اب ایسا نہیں ہوگا اگر یونی کوڈ میں تحریر لکھی جاۓ۔ میں جس فانٹ میں یہ مضمون ٹائپ کر رہا ہوں، وہ اگر آپ کے پاس موجود نا بھی ہو تو بھی کمپیوٹر کوئی دوسرا فانٹ ایسا چن لے گا جس میں اردو کے کیریکٹرس شامل ہوں، جیسے عام فانٹ ٹائمس، ایریل یا ٹاہوما۔ اور یہ تحریر نستعلیق میں نہ سہی، نسخ فانٹ میں پڑھی تو جا سکے گی۔ یہ یونی کوڈ نظام مستقل ترقی پذیر ہے اور حال ہی میں یکم اپریل کو اس کا۲ء ۴ ورژن جاری کیا گیا ہے۔ اب اردو کی کئی ویب سائٹس بھی جیسے بی بی سی اردو، جنگ، اردوستان ( www.bbc.urdu.com, www.jang.com, www.urdustan.com) اسی کوڈ کا استعمال کر رہی ہیں۔ ایک عالمی پروجیکٹ ہے جسے وکی پیڈیا کا نام دیا گیا ہے اور جو ایساآن لائن انسائکلو پیڈیا ہے جس میں آپ خود بھی اضافہ یا تبدیلی کر سکتے ہیں، اس کا بھی اردو چینل دستیاب ہے جسے www.wikipedia.org/urduپر دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ بھی اسی یونی کوڈ کے سبب ممکن ہو سکا ہے۔
مائکرو سافٹ کے آپریٹنگ سسٹم ونڈوز ۲۰۰۰ اوربطور خاص XP پوری طرح یونی کوڈ پر منحصر ہیں۔ ایک اور آزاد آپریٹنگ سسٹم لِنکس تو تقریباً دس سال سے اس کوڈ کو استعمال کر رہا ہے۔ اب آپ اس کے اہل ہیں کہ سادہ ٹیکسٹ اڈیٹر جیسے نوٹ پیڈ میں بھی اردو میں تحریر لکھ سکتے ہیں۔ اسی کوڈ کا استعمال کر کے ای میل بھی بھیج سکتے ہیں جسے حاصل کرنے والا بھی پڑھ سکے گا۔ اس کے لۓ کسی مخصوص سافٹ ویر کی چنداں ضرورت نہ ہو گی۔ اس میں دو راۓ نہیں کہ یونی کوڈ ہی مستقبل ہے۔اور اب آسکی نظام قریب المرگ ہے۔
اگر قارئین نے اس مضمون کو پسند فرمایا تو آئندہ اس کی دو قسطیں مزید پیش کی جائیں گی، پہلی اس سلسلے میں کہ آپ کے ونڈوز آپریٹنگ سسٹم کو کس طرح اردو کے لۓ قابل عمل بنایا جاۓ۔ اور دوسر ی قسط میں یہ کہ انٹر نیٹ پر دستیاب یونی کوڈ تحریر کی ویب سائٹس اپنے انٹر نیٹ سافٹ ویر (براؤزر)کوکس طرح پڑھنےکے قابل بنایا جاۓ۔ کچھ عرصے سے پاکستان میں اور اب ہندوستان میں www.indlinux.org کی یہ کوششیں جاری ہیں کہ لنکس نامی پورے آپریٹنگ سسٹم کو اردو میں ڈھال دیا جاۓ، اس طرح کہ آپ کو اپنے ڈیسک ٹاپ پر ہر حرف اردو کا نظر آۓ۔ عربی اور فارسی میں یہ کوشش کامیابی سے کی جا چکی ہے اور www.arabeyes.orgنے عربکس نامی آپریٹنگ سسٹم اور www.shabdix.org نے شبدیز نامی آپریٹنگ سسٹم بنایا ہے۔ اور یہ ایسی سی ڈی کی صورت میں ہے کہ اسے آپ انسٹال کۓ بغیر چلا سکتے ہیں اور کام کر سکتے ہیں یا کم از کم اس کی کھوج بین (explore)کر سکتے ہیں۔
آخر میں ایک اہم بات۔ اس بات سے مجھے بے حد تکلیف ہوتی ہےکہ اس آفاقی کوڈ کے باعث جب اردو میں کام کرنا اتنا آسان ہو گیا ہے تو اس کے استعمال کی ٹریننگ کیوں نہیں دی جاتی۔ کمپیوٹر رسالے (جو اردو میں نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہیں) ہی نہیں، دوسری زبانوں اور انگریزی کے رسالےبھی اس سلسلے میں خاموش دکھائی دیتے ہیں۔ حالاں کہ اس کوڈ کے ذریعے ہندوستان کی ہی نہیں، دنیا کی ہر زبان لکھی جا سکتی ہے۔ اسی طرح کئی اکادمیاں اردو ڈی۔ٹی۔پی کی ٹریننگ دیتی ہیں مگر میری ناقص معلومات کے مطابق یہ سب بھی محض ان پیج اور اردو پیج کمپوزر کی ہی ٹریننگ دیتی ہیں۔ امید کرتا ہوں کہ کونسل براۓ فروغِ اردو زبان اس سلسلے میں پیش قدمی کرے گی۔جب تک یہ بات عام نہیں ہوتی کہ اب کسی زبان میں کام کرنے کے لۓ کسی خاص سافٹ ویر کی ضرورت نہیں، اردو دنیا میں ہر طرف ان پیج کا استعمال، بلکہ اگر سچ کہوں تو اس کی چوری(Piracy) جاری رہے گی۔ حالاں کہ کورل ڈرا ڈی ٹی پی سافٹ ویر کا تازہ ورژن۱۲ بھی اردو یونی کوڈ کی صلاحیت رکھتا ہے اور سیدھے اسی میں ڈی ٹی پی کا کام کیا جا سکتا ہے اور ورڈ ایکس پی میں بھی (پیج میکر نام کا سافٹ ویر اس معاملے میں ابھی پیچھے ہے)۔
اردو دنیا (اور" اردو دنیا"، یہ رسالہ بھی)جتنی جلدی یونی کوڈ کو اپنا سکے گی، اردو کی ترقی کی راہیں دور جدید میں مزید ہموار ہوں گی۔
نوٹ:جو قارئین مزید معلومات، کی بورڈ اور فانٹ وغیرہ حاصل کرنا چاہیں وہ راقم الحروف کی ایک بے حد فعال انٹر نیٹ فورم کے ممبر بن سکتے ہیں۔ یہ گروپ ہے:
www.groups.yahoo.com/urdu_computing۔ اس کے ماضی کے بہت سے پیغامات میں مفید معلومات حاصل ہو سکتی ہیں۔ کی بورڈ اور ایک عمدہ نستعلیق فانٹ پاکستان کی اوپن یونیورسٹی کے مرکزCentre of Research in Urdu Language Processingکی ویب سائٹ www.crulp.org پر بھی دستیاب ہیں۔
یہی مضمون میں اوپن آفس کے رائٹر میں لکھ کر اور مائکروسافٹ ورد میں مزید ایڈٹ کر کے ای میل سے بھیج رہا ہوں۔ اور" اردو دنیا" سے امید رکھتا ہوں کہ اسے اسی شکل میں شائع کرنے کی کوشش کی جاۓگی۔ اسے دوبارہ ان پیج میں ٹائپ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ضدا نخواستہ پھر بھی ضرورت پڑی تو ایک سافٹ ویراردو یونی کوڈ سالیوشن کے نام سے اردو کمپیوٹنگ یاہو گروپ سے دستیاب ہے جس میں تھوڑا تھوڑا مواد کاپی کر کے اس میں پیسٹ کر کے ان پیج ٹیکسٹ برامد کی جا سکتی ہے، جسے پھر کاپی کر کے ان پیج میں پیسٹ کر سکتے ہیں۔
aijazakhtar@gmail.com, aijazubaid@gawab.com