جنگ آزادی:لاہور- ۳۰ جولائی ۱۸۵۷ء

میاں میر (لاہور) میں تعینات رجمنٹ کو مئی میں غیرمسلح کر دیا گیا تھا اس کے باوجود انہوں نے ۳۰ جولائی کو بغاوت کردی اور اپنے کمانڈنگ آفیسر میجر اسپنسر کو قتل کرکے فرار ہوگئے۔ مشرق میں دہلی کی طرف بڑھنے کی بجائے انہوں نے مخالف سمت اختیار کی۔ وہ اجنالہ کے تحصیلدار کے ساتھ لڑائی میں مصروف اور۳۱ جولائی تک دریا کے کنارے پر محصور تھے کہ امرتسر کا ڈپٹی کمشنر فریڈرک کوپر ایک چھوٹی فوج کے ساتھ منظر پر نمودار ہوا۔ انقلابی ایک ایسے جزیرے پر جہاں سے بھاگنے یا دفاع کیلئے کوئی سا مان موجود نہ تھا انتہائی افسوسناک حالت میں طویل پیدل مسافت کے باعث تھکن سے چُور اور بھوک سے مررہیتھے۔ ان میں سے کچھ نے گرفتاری دے دی اور کچھ کو فرار ہونے کی کوشش کے دوران محاصرہ کرنے والے گاؤں والوں نے پکڑ کر فوج کے حوالے کردیا۔ مجموعی طور پر کوپر ۵۰۰ باغی سپاہیوں کو رسیوں سے جکڑ کر اجنالہ لیگیا

جنگ آزادی:جہلم- ۶ جولائی ۱۸۵۷ء

جیسے ہی باغی سپاہیوں نے فائرنگ شروع کی افسر اور سکھ کامریڈ، یورپیوں کی طرف بھاگے۔ Multani Horse کو حملے کے احکا مات دیے گئے مگر باغی سپاہی برآ مدے، کوارٹر گارڈ کی چھت اور اپنے کمروں میں آڑ لے چکیتھے دس منٹ جاری رہنے والے اس مختصر مقابلے میں ۲۴۰ حملہ آوروں میں سے ۹ مارے گئے جبکہ ۲۸ زخمی ہوگئے۔ آرٹلری اور انفنٹری دشمن کی مدد کیلئے آگئی تھیں انقلابی شدید دباؤ کا مقابلہ کرتیرہے لیکن بالآخر انہیں ۳۹ رجمنٹ کی لائنز کی طرف جانے کیلئے مجبور ہونا پڑا۔ رجمنٹ کے اسلحے کا گودام جل جانے کے باعث وہ یہاں زیادہ دیر نہیں رک سکتے تھے لہٰذا وہ گاؤں Saemlee کی طرف چلے گئے۔

جنگ آزادی: گجیرہ- ستمبر ۱۸۵۷ء

گجیرہ اس اہم تجارتی راستے پر واقع ہے جو لا ہور کو ملتان سے اور سندھ کو بمبئی سے ملاتا ہے۔ انقلاب کی خبر ملتے ہی علاقائی حکام نے احتیاطی تدابیر اختیار کرلی تھیں لیکن احتیاطوں کے باوجود ۲۶ جولائی کو قیدیوں نے بغاوت کردی جنہیں قابو کرنے کیلئے وحشیانہ طریقے اختیار کئیگئے ۵۱ قیدی قتل اور زخمی کردییگئے۔ احمد خان کھرل جوکہ اس علاقے میں انقلابیوں کے سربراہ تھے انہیں کچھ وقت کیلئے زیر نگرانی رکھنے کے بعد رہا کیا گیا۔

جنگ آزادی:دہلی- ۱۱مئی ۱۸۵۷ء

کمپنی بہادر کے ان احکا مات کی تشہیر کو جوکہ ان الفاظ پر مشتمل تھے کہ " عوام الله کی ، ریاست بادشاہ کی اور حکم کمپنی بہادر کا" عوام کی تنقید کا سامنا تھا۔ ریاست تو بادشاہ کی ہی تھی اس بات سے قطع نظر کہ اس پر بادشاہ کی مرضی کے مطابق یا اس کے خلاف کوئی اور حکومت کررہاتھا لہٰذا یہ بات یقینی تھی کہ بادشاہ ہر اس موقع کو خوش آمدید کہے گا کہ جس سے ان کے اختیارات کے ہجوم میں کمی ہوسکے۔ ۱۱مئی ۱۸۵۷ء کی صبح بادشاہ سپاہی دستوں کے اچانک شور سے پریشان ہوگیا۔ میروت کی تھرڈ لائٹ کیولری کے سوا ر جمنا پار کرچکے تھے اور قلعے کی دیواروں کے نیچے سے بادشاہ کو حق کی خاطر اپنی لڑائی میں مدد کیلئے پکار رہے تھے

جنگ آزادی:۱۸۵۷ء

۱۷۹۹ء میں میسور کی شکست کے ساتھ ہی ہندوستانیوں پر خوش قسمتی کے دروازے بند ہوگئے تھے۔ ریاستیں یکے بعد دیگرے برطانوی راج میں شامل ہورہی تھیں۔ نا اہل انتظا میہ، انصاف میں تاخیر، ناقص معاشی حالات اور فنون کی ناقدری کے باعث لوگ مایوسی کا شکار ہورہے تھے وہ برطانیہ سے آزادی چاہتے تھے لہٰذا جدوجہد کا آغاز ہوا۔ بیگم حضرت محل، خان بہادر خان، مولوی احمدا لله شاہ، با دشاہ بہادر شاہ ظفر اور بہت سے دیگر نمایاں رہنما تھے۔ اس متفقہ عمل نے ذات پات، مذہب، زبان اور علاقائی تعصبات کی بیڑیاں کاٹ دیں اور ۱۰ مئی ۱۸۵۷ء کو ہندوستانیوں نے یک جان ہوکر غیرملکی عملداری کے خلاف بغاوت کردی۔

فتح وینس:۱۴۷۸ء

بلقان ریاستوں پر غیر منقسم حکومت قائم کرنے کی کوشش نیمحمدعثمانی" فاتح"کوہنگری سےDanube میں نیز یونان، البانیہ اور دریائےAegean میں وینس سے متصادم کردیا۔ پوپ نے ان دو ریاستوں کی حمایت میں جنگ کیلئے تمام یورپ کی قیادت کیلئے کوشش کی۔ محمد نے ۱۴۵۴ اور ۱۴۵۵ء میں سربیا میں دو مہم کی قیادت کی اور سربیا کو عثمانی سلطنت کا ایک زیادہ پائیدار حصہ بنانے میں کامیاب ہوگیا تاہم وہ ۱۴۵۶ء میں بلغراد میں ہنگری کو شکست دینے میں ناکام رہا۔ Morea میں دو شہزادوں کے درمیان پرتشدد کاروائی فروغ پانے لگی۔ محمد" فاتح " Morea کو فتح کرنے میں کامیاب ہوگیا۔

ترکوں کے خلاف جنگیں:۱۳۷۱ء
رومی شہنشاہ کی درخواست پر پوپ اربن پنجم نے یورپ کے حکمرانوں کو پیغام روانہ کیا اور Savoy کے بادشاہ Asmodeus کی قیادت میں جو کہ برّی فوج کے ساتھ ایک بحری بیڑہ بھی لایا تھا ترکوں کے خلاف جنگ شروع ہوئی۔ ترکوں سے شکست کے بعد بلقان طاقتیں متحد ہوکر سربیا کے بادشاہ کی زیر قیادت ترک ٹھکانوں پر حملہ آور ہوئیں۔ ۱۳۷۱ء میں لڑی جانے والی جنگ میں سرب اور ان کے اتحادیوں کو شکست ہوئی اور مراد نے Macedonia کو اپنی ریاست میں شامل کر لیااسکے بعد مراد نے البانیہ اور یونان تک چھاپہ مار دستے روانہ کئے۔ بلقان علاقوں میں وہ اس قدر طاقتور ہوگیا تھا کہ بالآخر رومی شہنشاہ Palaeologusترک سلطان کا تابعدار ہوگیا۔

ترکی کی آزادی:۲۰ جنوری ۱۹۲۱ء

۱۹۰۸ء میں ترک بغاوت کے کچھ عرصے بعد ہی بلغاریہ نے آزادی کا اعلان کردیا۔ آسٹریا نے بوسنیا ہرزیگووینا کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ Crete نے یونان کے ساتھ اتحا د کر لیا بلقان نے جنگ کا اعلان کردیا اور البانیہ اور مونٹی نیگرو کا قیام عمل میں آیا۔ سربیا اور رومانیہ نے اپنی حدود میں اضافہ کیا۔ ۱۲-۱۹۱۱ء میں اٹلی کے ساتھ جنگ کے نتیجے میں Tripolitania اور Dodecanese سے محروم ہونا پڑا۔ اتحادی دستوں نے ۱۳ نومبر ۱۹۱۸ء کو استنبول میں قدم رکھے اور ایک فوجی انتظامیہ تشکیل دی۔ ۱۹۱۹ء میں فرانس Ayntab, Mar'ash اور Adana حاصل کرچکا تھا۔ اطالویوں نے Antalya اور برطانویوں نے Samsun اور Dardanelles میں قدم رکھے۔ ۱۵ مئی کو یونانی عظمیر میں اترے اور Anatolia کو عظیم تر یونان میں شامل کرنے کیلئے آگے بڑھنا شروع کیا۔

فتح ترکستان:۷۱۴-۷۰۵ء
۷۰۵ء میں نا مور مسلم حکمران حجاج بن یوسف نے قطبع بن مسلم کو خراسان کا گورنر مقرر کیا اور انھیں جنگ کو مشرق میں ایشیا کے مرکز کی سمت جاری رکھنے کی ہدایت کی۔ قطبع غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل فوجی اور سفارت کار تھے قطبع کی فوج کی اصل طاقت عرب قبائل کے لوگ تھے جو کہ بصرہ اور کوفہ سے اس دور دراز سرحدی علاقے تک پہنچے تھے۔انکے علاوہ کافی سپاہی مقا می ایرانی آبا دی سے لئے گئے تھے جسکی اکثریت اسلام قبول کرچکی تھی اور عرب قیادت میں اپنے روایتی دشمنوں طوران کے خانہ بدوشوں سے لڑنے کے لئے بے تاب تھے۔

ترک سلطنت کا عروج:۱۵۶۶-۱۵۲۰ء

سلطان سلیمان نے ۱۵۲۰ء میں اپنے والد کے بعد تخت و تاج سنبھالا اسے عثمانی سربراہوں میں سب سے عظیم مانا جاتا تھا ۔ سلیمان ایک ایسا ا میر سلطنت تھا جس کے دربار میں تمام قبیلوں کے سردار موجود تھے اور جس نے ترک بحریہ کوMediterranean کا حکمران بنادیا تھا اور جو اپنے دربار کی عظمت ، اپنی طاقت اور شان و شوکت کے باعث یورپین تاریخ میں سلیمان ، عظیم الشّان کے نام سے جانا جاتا ہے۔

Pages

Subscribe to Urduseek.com English Urdu Dictionary انگریزی اردو لغت RSS