جنگ آزادی:دہلی- ۱۱مئی ۱۸۵۷ء

جنگ آزادی:دہلی- ۱۱مئی ۱۸۵۷ء

کمپنی بہادر کے ان احکا مات کی تشہیر کو جوکہ ان الفاظ پر مشتمل تھے کہ " عوام الله کی ، ریاست بادشاہ کی اور حکم کمپنی بہادر کا" عوام کی تنقید کا سامنا تھا۔ ریاست تو بادشاہ کی ہی تھی اس بات سے قطع نظر کہ اس پر بادشاہ کی مرضی کے مطابق یا اس کے خلاف کوئی اور حکومت کررہاتھا لہٰذا یہ بات یقینی تھی کہ بادشاہ ہر اس موقع کو خوش آمدید کہے گا کہ جس سے ان کے اختیارات کے ہجوم میں کمی ہوسکے۔ ۱۱مئی ۱۸۵۷ء کی صبح بادشاہ سپاہی دستوں کے اچانک شور سے پریشان ہوگیا۔ میروت کی تھرڈ لائٹ کیولری کے سوا ر جمنا پار کرچکے تھے اور قلعے کی دیواروں کے نیچے سے بادشاہ کو حق کی خاطر اپنی لڑائی میں مدد کیلئے پکار رہے تھے

بہادر شاہ ظفر نے جوکہ حیرت زدہ ہوگیاتھا سپاہیوں سے کہا کہ وہ فقیر ہوکر ریٹائرمنٹ کے دن گزار رہا ہے اس کے پاس ان کی مدد کیلئے نہ تو پیسہ ہے اور نہ فوج۔ بالآخر سات سپاہی قلعے کا راجگھاٹ دروازہ کھلا دیکھ کر اندر داخل ہوگئے جیسے ہی وہ " دن، دن" کی آوازیں لگاتے ہوئے آگے بڑھے ایک پرجوش مسلم باغی ان کے پیچھے ہولیا۔ سنہری مسجد پہنچ کر انہوں نے ہندو سے عیسائی ہونے والے ڈاکٹر چند لال کو قتل کردیا جو کہ تشدد کا پہلا عمل تھا۔ محل کے محافظوں میں سے ایک اردلی مغل بیگ کمشنر فریزر پر ٹوٹ پڑا اور اسکا گال ہڈی تک کاٹ ڈالا۔ پرجوش ہجوم نے اب اپنا رخ اپارٹمنٹس کی طرف کرلیا جہاں ڈگلس اور Hutchinson کو ان کے مہمانوں سمیت قتل کردیا گیا۔ تقریباً ۵۰ باغی سپاہیوں نے اپنا رخ دیوان خاص کی طرف کیا اور بآواز بلند اپنی آمد کا اعلان ان الفاظ میں کیا " ہم اپنے مذہب کی خاطر لڑنے اور بادشاہ کو تعظیم پیش کرنے آچکے ہیں۔" بادشاہ نے مدد نہ کرنے کا عذر پیش کیا" میرے پاس نہ فوج ہے نہ ہتھیار اور نہ ہی خزانہ اور میں کسی سے مل جانے کی حالت میں بھی نہیں ہوں۔" انقلابیوں نے کہا " ہمیں صرف اپنی مہربان صورت دکھا دیجئے ہمیں سب کچھ حاصل ہو جائے گا۔" اس کے بعد انقلابی شہر کا محاصرہ کرنے کیلئے منتشر ہوگئے۔