غزل - ۹

وہ اک گلدستہ ہے ہم
بیخودوں کے طاقِ نسیاں کا

کہ ہر اک قطرہٴ خوں دانہ ہے تسبیحِ مرجاں کا

لیا دانتوں میں جو تنکا، ہوا ریشہ نیستاں کا

مرا ہر داغِ دل اک تخم ہے سروِ چراغاں کا

کرے جو پرتوِ خورشید، عالم شبنمستاں کا

ہیولیٰ برق خرمنِ کا ہے خونِ گرم دہقاں کا

مدار اب کھودنے پرگھاس کے ہے میرے درباں کا

چراغ مردہ ہوں میں بے زباں، گورِ غریباں کا

دلِ افسردہ گویا حجرہ ہے یوسف کے زنداں کا

سبب کیا، خواب میں آکر، تبسم ہائے پنہاں کا؟

قیامت ہے سرشکِ آلودہ ہونا تیری مژگاں کا

ستائش گر ہے زاہد اس
قدر جس باغِ رضواں کا

بیاں کیا کیجیئے بیدادِ کاوش ہائے مژگاں کا

نہ آئی سطوتِ قاتل بھی مانع میرے نالوں کو

دکھاؤں گا تماشا، دی اگر فرصت زمانے نے

کیا آيئنہ خانے کا وہ نقشہ تیرے جلوے نے

مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی

 اُ  گا ہے گھر میں ہر سو سبزہ ، ویرانی تماشاکر!

خموشی میں نہاں خوں گشتہ لاکھوں آرزوئیں ہیں

ہنوز اک پرتوِ نقشِ خیالِ یار باقی ہے

بغل میں غیر کی آج آپ سوتے ہیں کہیں ورنہ

نہیں معلوم کس کس کا لہو پانی ہوا ہوگا

نظر میں ہے ہماری
جادہٴ راہِ فنا، غالب

کہ یہ شیرازہ ہے عالم کے اجزائے پریشاں کا

* * * * *