غزل - ۴۲
شب کہ وہ مجلس فروزِ خلوتِ ناموس تھا
رشتہٴ ہر شمع خارِ کسوتِ فانوس تھا
مشہد عاشق سے کوسوں تک جو اُگتی ہے حنا
کس قدر یا رب ہلاکِ حسرتِ پابوس تھا
حاصلِ الفت نہ دیکھا جز شکستِ آرزو
دل بہ دل پیوستہ،، گویا، یک لبِ افسوس تھا
کیا کروں بیماریِ غم کی فراغت کا بیاں
جو کہ کھایا خونِ دل، بے منتِ کیموس تھا
* * * *
آئينہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا
قاصد کو اپنے ہاتھ سے گردن نہ ماریے
اس کی خطا نہیں ہے یہ میرا قصور تھا
* * * * *