غزل - ۳۴
رشک کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلاص حیف
عقل کہتی ہے کہ وہ بے مہر کس کا آشنا
ذرہ ذرہ ساغرِ مے خانہٴ نیرنگ ہے
گردشِ مجنوں بہ چشمکہائے لیلیٰ آشنا
شوق ہے ساماں طرازِ نازشِ اربابِ عجز
ذرہ، صحرا دستگاہ و قطرہ، دریا آشنا
میں اور اک آفت کا ٹکڑا، وہ دلِ وحشی کہ ہے
عافیت کا دشمن اور آوارگی کا آشنا
شکوہ سنجِ رشک ہمد یگر نہ رہنا چاہیے
میرا زانو مونس اور آئینہ تیرا آشنا
کوہکن نقاشِ یک تمثالِ شیریں تھا، اسد
سنگ سے سر مار کر ہووے نہ پیدا آشنا
* * * * *