غزل - ۱۲

رکھیو یارب یہ درِ گنجینہٴ گوہر کھلا

اِس تکلف سے کہ گویا بتکدے کا در کھلا

آستیں میں دشنہ پنہاں، ہاتھ میں نشتر کھلا

پر یہ کیا کم ہے کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا

خلد کا اک در ہے میری گور کے اندر کھلا

زلف سے بڑھ کر نقاب اُس شوخ کے منہ پر کھلا

جتنے عرصے میں مِرا لپٹا ہوا بستر کھلا

آج اُدھر ہی کو رہے گا دیدہٴ اختر کھلا

نامہ لاتا ہے وطن سے نامہ بر اکثر کھلا

بزمِ شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا

شب ہوئی، پھر انجمِ رخشندہ کا منظر کھلا

گرچہ ہوں دیوانہ، پر کیوں دوست کا کھاؤں فریب

گو نہ سمجھوں اس کی باتیں، گونہ پاؤں اس کا بھید

ہے خیالِ حُسن میں حُسنِ عمل کا سا خیال

منہ نہ کھلنے پر وہ عالم ہے کہ دیکھا ہی نہیں

در پہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسا پھر گیا

کیوں اندھیری ہے شبِ غم، ہے بلاؤں کا نزول

کیا رہوں غربت میں خوش، جب ہو حوادث کا یہ حال

اس کی امت میں ہوں مَیں، میرے رہیں کیوں کام بند

واسطے جس شہ کے غالب گنبدِ بے در کھلا

* * * * * *

Comments

1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
16
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95

Make your own life time more easy get the personal loans and everything you want.

Its my great pleasure to visit your site and to enjoy your awesome post here. I like it very much. I can feel that you put much attention for these articles, as all of them make sense and are very useful

stock market trading tips | Günstige Unfallversicherung | Viral Marketing Contests | bed bug sniffing dog | farmville cheats

We are a group of volunteers and starting a new initiative in a community. Your blog provided us valuable information to work on.You have done a marvellous job!
tablet android honeycomb terbaik murah